کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 98
							
						
								
جائز نہیں ہے، نہ اس کی عزت ومال پر دست درازی جائز ہے اور نہ ناحق اس کی جان لی جاسکتی ہے۔ایک روایت میں آتا ہے کہ
’’ایک مسلمان نے کسی ذمی شخص کو قتل کردیا، اس کا مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے ذمہ کو وفا کرنے کا سب سے زیادہ ذمہ دار میں ہوں ، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدلے میں مسلمان کو قتل کرنے کا حکم دے دیا۔‘‘[1]
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دورِخلافت میں قبیلہ بکر بن وائل کے ایک شخص نے حیرہ کے ایک ذمی کو قتل کردیا، اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ قاتل کو مقتول کے ورثا کے حوالے کردیا جائے، تاکہ وہ اسے قتل کردیں ، چنانچہ وہ مقتول کے ورثا کو دے دیا گیا اور اُنہوں نے اسے قتل کردیا۔[2]
حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ان کے پاس ایک مسلمان کو لایا گیا جس پر ایک ذمی کے قتل کا الزام تھا، ثبوت مکمل ہونے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے قصاص میں اسے قتل کرنے کا حکم دے دیا۔ مقتول کے بھائی نے آکر عرض کیا کہ میں نے خون معاف کیا۔ مگر آپ مطمئن نہ ہوئے اور فرمایا: شاید اُنہوں نے تمہیں ڈرایا دھمکایا ہے؟ اس نے کہا: نہیں ، ایسی بات نہیں ہے، مجھے خون بہا مل چکا ہے اور میں سمجھتا ہوں ، اس کے قتل سے میرا بھائی واپس نہیں آجائے گا۔ تب آپ رضی اللہ عنہ نے قاتل کو رہا کر دیا اور فرمایا: 
((أنت أعلم،من کانت لہ ذمّتنا فذمتہ کذمَّتنا ودیتـہ کدیتنا))
’’ تم جانتے ہو کہ جو کوئی ہمارا ذمی ہوا، اس کا خون ہمارے خون کی طرح اور اس کی دیت ہماری دیت کی طرح ہے۔‘‘	
 ایک روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: 
’’إنما بذلوا الجزیۃ لتکون دمائہم کدمائنا وأموالھم کأموالنا‘‘[3]
’’اُنہوں نے جزیہ اس لئے خرچ کیا ہے کہ ان کے مال ہمارے مال کی طرح اور ان کے خون ہمارے خون کی طرح ہوجائیں ۔‘‘
						    	
						    