کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 97
نے محترم قرار دیا ہے، سواے اس صورت کے کہ ایسا کرنا حق کا تقاضا ہو۔ اللہ نے تمہیں ان باتوں کی تاکید کی ہے، شاید کہ تم کو عقل آجائے۔‘‘
اور فرمایا:
﴿ مِنْ أَجْلِ ذَٰلِكَ كَتَبْنَا عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا ﴾ (المائدۃ:۳۲)
’’اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل کو یہ لکھ کردیا کہ جو کوئی کسی کی جان لے، بغیر اس کے کہ اس نے کسی کی جان لی ہو یا زمین میں فساد کیا ہو، تو گویا اس نے تمام انسانوں کا خون کیا اور جس نے کسی کی جان بچائی تو گویا اس نے تمام انسانوں کو بچایا، ہمارے رسول ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے ،مگر اس کے بعد بھی ان میں سے بہت ایسے ہیں جو زمین میں حد سے تجاوز کرجاتے ہیں ۔‘‘
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفہ کے روز اپنے خطبہ میں فرمایا:
(( إن دماء کم وأموالکم و أعراضکم علیکم حرام کحُرمۃ یومکم ھذا، في بلدکم ھذا،في شھرکم ھذا)) [1]
’’تمہارے خون، تمہارے اَموال، تمہاری عزتیں تم پر حرام ہیں جس طرح تمہارا یہ دن، تمہارے شہر میں اور تمہارے اس مہینہ میں محترم ہے۔‘‘
الفاظ کا یہ عموم واضح کرتا ہے کہ اس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں ، اس کی دلیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے :
((من قتل نفسًا معاھدًا لم یرح رائحۃ الجنۃ وإن ریحھا لیـوجد من مسیرۃ أربعین عامًا)) [2]
’’جس نے کسی ذمی معاہد کو ہلاک کیا، اسے جنت کی خوشبو بھی نصیب نہ ہوگی حالانکہ اس کی خوشبو چالیس سال کی مسافت تک محسوس کی جائے گی۔‘‘
ان دلائل سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ غیر مسلم کو کسی صورت میں بھی ناحق کوئی تکلیف پہنچانا