کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 95
بعدازاں اپنے لئے دین ودنیا کی بھلائی،[1] مؤمنین، والدین، اولاد اور اپنے لئے بخشش کی التجا کرتا ہے۔[2]غرض یہ کہ انسان اس وقت مناجات کے آخری مراحل میں ہوتا ہے اور اپنے مالک ِحقیقی کے خزانوں سے ہر اُس چیز کا طلبگار ہوتا ہے جس کی اسے ضرورت ہوتی ہے۔ تب یہ انسان اپنے دامن کو فیضانِ الٰہی سے پُر کرکے السلام علیکم ورحمتہ اللہ کہتا ہوا نماز سے فارغ ہوجاتا ہے۔[3]
تاہم اسی انداز میں مؤدب دو زانو بیٹھ کر انتہائی تذلل کے ساتھ اللہ مالک الملک کی کبریائی بیان کرتا ہے اور اپنی نماز میں کوتاہی اور سستی پر استغفار[4] کرتا ہے اور اپنی دنیا وآخرت کی بھلائی اور بہتری کے لئے دعائیں مانگتا ہے۔ جب انسان ایسے انداز میں نماز ادا کرتا ہے تو محسن ِانسانیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے یہ خوشخبری پالیتا ہے کہ
((ما من مسلم توضأ فأحسن الوضوء ثم صلّٰی صلوٰۃ یحفظھا ویعقلھا إلا دخل الجنۃ)) [5] ’’یعنی جو شخص سنت کے مطابق اچھی طرح وضو کرکے پھر دل لگا کر حفاظت سے اور سمجھ کر نماز ادا کرے، وہ جنت میں داخل ہوگا۔‘‘
اللھم وفقنا لما تحب و ترضی … آمین یارب العالمین !