کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 94
کرتاہے۔ پھر اللہ اکبر کہہ کر دوسری رکعت کے لئے کھڑا ہوجاتا ہے۔ اسی ہیئت پر باقی رکعات پوری کرکے دو زانو مؤدب بیٹھ کر حلف نامہ[1] پیش کرتاہے : الٰہی زبان تو نے عطا فرمائی، لہٰذا حمد و تسبیح، تحلیل و تمجید اور اَذکار صرف تیرے لئے۔ الٰہی! جسم تو نے عطا فرمایا لہٰذا میرا قیام رکوع سجدہ طواف اور دیگر جسمانی عبادتیں صرف تیرے لئے۔ الٰہی تو نے مال عطا فرمایا، لہٰذا میری قربانی، نذرونیاز، صدقات و خیرات وغیرہ جملہ مالی عبادتیں صرف تیرے لئے ہیں ۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے سلامتی، اور رحمت و برکت کی دعا کرتا ہوا اپنے لئے اور اللہ کے نیک بندوں کے لئے بھی سلامتی کی درخواست کرتا ہے۔ اس کے بعد اقرار نامہ پیش کرتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی اُلوہیت اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عبدیت و رسالت کو تسلیم کرتا ہے۔ اس کے بعد محسن انسانیت حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود[2] کا تحفہ پیش کرتا ہے پھر اپنے ہی جسم پر کئے گئے مظالم کا تذکرہ کرکے اپنے مالک ِحقیقی غفور رحیم سے مغفرت کا سوال کرتا ہے۔[3] غم و حزن، عجز و کسلان، بخل و بزدلی، قرض کے بوجھ اور قہر الرجال [4] کے ساتھ عذابِ جہنم، عذابِ قبر، فتنۂ دجال، اور حیات و ممات کے فتنوں سے پناہِ الٰہی کا طالب ہوتا ہے۔[5]