کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 93
ذاتِ کبریائی کی بڑائی بیان کرتااوراپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں[1] تک اُٹھاتا ہوا (رفع الیدین کرتا ہوا) جھک جاتا ہے اوربحالت ِرکوع خود کو انتہائی کمزور سمجھتے ہوئے اپنے مالک حقیقی کی عظمت بیان کرتا ہے اور متعدد بار سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیْم[2] سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيْ [3]سُبُّوْحٌ قُدُّوْْسٌ رَبُّ الْمَلائِکَۃِ وَالرَّوْحِ[4] کا وِرد کرتاہے۔ اس کے بعد سر اُٹھا کر اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اُٹھاتا ہوا امید و رجا اور مکمل وثوق سے یوں گویا ہوتا ہے: سَمِعَ ﷲُ لِمَنْ حَمِدَہٗ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس عاجز اور نادار بندے کی بات سن لی جس نے اس کی حمد بیان کی۔ پھر ((رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّـبًا مُبَارَکًا فِیْہِ)) [5] یا ((رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ مِلأَ السْمٰوَاتِ وَمِلأَ الأَرْضِ وَملِأَ مَا شِئْتَ مِنْ شَیْئٍ …)) الخ[6] مسنون الفاظ کے ذریعے ذاتِ کبریائی کی حمد بیان کرتے ہوئے اس کی رضا مندی کا طالب ہوتا ہے۔ اس کے بعد اللہ اکبر کہتاہوا اپنی پیشانی اپنے مالکِ حقیقی کے درپر رکھ دیتا ہے اور نہایت عاجزی و انکساری سے متعدد بار سُبْحَانَ رَبِّیَ الأَعْلیٰ [7]یا((اللّٰھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ وَبِمُعَافَاتِکَ مِنْ عُقُوْبَتِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ لاَ أُحْصِيْ ثَنَائً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلیٰ نَفْسِکَ)) [8] پڑھتا ہے۔ پھر ندامت کے آنسو بہاتا ہوا اپنے صغائر و کبائر ظاہر اور پوشیدہ، اگلے پچھلے، دیدہ دانستہ گناہوں کی معافی کا طلب گار ہوتا ہے۔[9] پھر تکبیر کہتے ہوئے سر اُٹھاتا ہے اوردوسجدوں کے درمیان اطمینان سے بیٹھ کر التجا کرتا ہے: ((اللّٰھُمَّ اغْفِرْلِيْ وَارْحَمْنِيْ وَعَافِنِيْ وَاھْدِنِيْ وَارْزُقْنِيْ›))[10] ’’الٰہی مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، ہدایت، عافیت اور رزقِ (حلال) عطا فرما۔‘‘ پھر دوبارہ اللہ اکبر کہہ کر سجدہ ریز ہوجاتا ہے، تسبیحات پڑھتا اور عفو و کرم کی درخواست