کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 92
ہوجائے۔[1] علامہ منذری رحمۃ اللہ علیہ نے الترغیب و الترہیب میں یہ دعا بھی نقل کی ہے: ((سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ أَشْھَدُ أَنْ لاَّ إِلـٰہَ إِلاَّ أَنْتَ اَسْتَغْفِرُکَ وَأَتُوْبُ إِلَیْکَ)) [2] تکمیل ِوضو کے بعد جب مؤمن دربارِ الٰہی (مسجد) میں پہنچ کر قیام کے لئے اللہ اکبر کہتا ہوا اپنے کندھوں تک ہاتھ اُٹھاتا ہے تو یہ گویا اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ اس نے ہمہ تن اپنے آپ کو اللہ ربّ العزت کے سپرد کردیا ہے۔ وہ اپنے رب کے سامنے ہاتھ باندھ کر اللہ تعالیٰ کی پاکی و حمد، اس کے مبارک نام، اس کی اعلیٰ و ارفع شان کے تذکرہ کے بعد اس کی وحدانیت کا اقرارکرتا ہے۔ٍ [3]پھر شیطان مردود سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرنے کے بعد اللہ رحمن رحیم کے نام سے سورہ فاتحہ کا آغاز کرتا ہے۔ اللہ ربّ العالمین کی حمد و ستائش، اس کی شانِ رحیمی کے بعد اس کی کبریائی بیان کرتا ہے اور اس کی خالص عبادت اور اسی سے استعانت کا اقرار کرتا ہے تواسے اس حال میں دیکھ کر اللہ کریم فرماتے ہیں : ’’یہ میرے اور میرے بندے کے درمیان ہے، میرے بندے کیلئے ہے جو اس نے سوال کیا۔‘‘[4] تب یہ بے چین انسان صراطِ مستقیم کی رہنمائی کی التجا کرتا ہوا انعام یافتہ لوگوں کے راستہ کا طلب گار ہوتا ہے۔ مغضوب علیہم اور ضآلین کی راہ سے بچنے کی التجا کرتاہے تو اللہ کریم فرماتے ہیں کہ یہ میرے بندے کے لئے خاص ہے اور میرے بندے کے لئے ہے جو اس نے سوال کیا۔[5] پھر یہ انسان آمین[6]کہہ کر اس التجا کی قبولیت کا خواہشمند ہوتا ہے پھر اللہ رحمن رحیم سے سورۂ اخلاص پڑھ کر توحید کے سمندر میں غوطہ زن ہوتا ہے اور جملہ معبودانِ باطل کی نفی کرکے اس ذاتِ صمدی کی وحدانیت کا اقرار کرتا ہے جس کا کوئی ہمسر نہیں ، پھر اس