کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 91
نہیں کرتا (یعنی ہمیشگی اختیار نہیں کرتا) تو اس کی نماز اس کے لئے قیامت کے دن روشنی، دلیل اور نجات کا باعث نہ ہوگی اور قیامت کے دن وہ قارون، فرعون، ہامان اور ابی بن خلف کے ساتھ ہوگا۔‘‘[1] أعاذنا ﷲ قرآنِ کریم نے مذکورہ اشخاص کے لئے ظالم، مفسد، متکبر، فاسق اور کافر کے الفاظ استعمال کئے ہیں ۔ ایسے لوگوں کی معیت میں نجات اور نورانیت کہاں ؟ جبکہ مالک ِحقیقی کے دربار میں جبین ِنیاز خم کرنے والوں کے ظاہر و باطن میں نورانیت ہوتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ ’’میری اُمت کو قیامت کے دن بلایا جائے گا تو ان کے چہرے ،ہاتھ، پاؤں وضو کے نشانات کی وجہ سے چمکتے ہوں گے۔‘‘[2] مگر برا ہو بدعات کا کہ اس کے رسیا لوگ مذکورہ شناخت کے باوجود بھی حوضِ کوثر پر جانے سے روک دیے جائیں گے۔ ان کے اور رحمتہ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان ایک دیوار حائل ہوجائے گی اور یہ لوگ خود امامِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تر شانِ رحمت کے باوجود ((سُحقا سُحقا لمن غَیَّر بعدي)) [3]کی صداسنیں گے۔ حالانکہ اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق جب مؤمن وضو کرتا ہے تو وضو کے اعضا دھوتے وقت ہر ہر عضو سے گناہ جھڑ جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔[4]پھر جب وہ تکمیل وضو کے بعد آسمان کی طرف نظر اُٹھا کر [5] ((اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِيْ مِنَ التَّوَّابِیْنَ وَاجْعَلْنِيْ مِنَ الْمُتَطَھِّرِیْنَ‹))[6]اور ((أَشْھَدُ أَنْ لاَّ إِلـہَ إِلاَّ ﷲُ وَحْدَہٗ لاَشَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ)) پڑھتا ہے تو اس کے لئے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں پھر وہ جس دروازے سے بھی چاہے جنت میں داخل