کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 90
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسم خزاں میں ایک درخت کی دو شاخیں پکڑیں تو پتے تیزی سے گرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اے ابوذررضی اللہ عنہ ! میں نے کہا: لبیک یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إن العبد المسلم لیصلِّ الصلوٰۃ یرید بھا وجہ ﷲ فتھافت عنہ ذنوبہ کما یتھافت ھذا الورق عن ھذہ الشجرۃ)) [1]’’بلا شبہ ایک مسلم بندہ جب رضاے الٰہی کی خاطر نماز ادا کرتا ہے تو اس کے گناہ یوں جھڑ جاتے ہیں جس طرح یہ پتے اس درخت سے گر رہے ہیں ۔‘‘
بلکہ ایک مقام پر فرمایا: کہ پابندی سے پڑھی جانے والی نماز قیامت کے دن نور کا سبب ہوگی: ((من حافظ علیھا کانت لہ نورًا وبرھانًا ونجاۃ یوم القیامۃ)) [2]
’’جس نے نماز پر محافظت کی یہ نماز قیامت کے دن نور، برہان اور نجات کا باعث ہوگی ۔‘‘
قرآنِ مجید میں ہے کہ ’’مسلمان نماز کی وجہ سے روزِ محشر، قیامت کی ہولناکیوں اور ہمہ قسم کے خطرات سے محفوظ رہے گا۔‘‘[3]
اس کے برعکس جو شخص اقامت ِصلوٰۃ کے مفہوم اور اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف نماز ادا کرتا ہے، اصل وقت کی بجائے بے وقت اور اطمینان کی بجائے جلدی نماز ادا کرتاہے تو ایسی نماز بارگاہ ِایزدی میں مقبول نہیں ۔ ایسی نماز کو نقرۃ الغراب (کوے کی ٹھونگوں ) سے تعبیر کیا گیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
’’یہ منافق کی نماز ہے، بیٹھا سورج کا انتظار کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ جب سورج زرد ہوکر شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہوجاتا ہے تو(نماز کے لئے) کھڑا ہوتا ہے اور چار ٹھونگیں لگا کر فارغ ہوجاتاہے۔ وہ نماز میں اللہ تعالیٰ کا ذکر بہت ہی تھوڑا کرتا ہے۔‘‘[4]
مگر افسوس کہ آج کل اکثر لوگوں کی نماز عصر کا وقت (دیدہ دانستہ) یہی ہے۔امام کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کی حفاظت نہ کرنے والوں کو سخت وعید سنائی کہ جو شخص نماز پر محافظت