کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 88
اس طرح صحیح بخاری میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ مذکور ہے کہ اُنہوں نے ایک شخص کو دیکھا جو نماز میں رکوع و سجود اطمینان سے نہیں کرتا تھا۔ جب وہ نماز مکمل کرچکا تو حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اُس کو بلا کر فرمایا: تیری نماز نہیں ہوئی اور کہا کہ لومُتَّ مُتَّ علی غیر الفطرۃ التي فطر ﷲ محمدا صلی اللہ علیہ وسلم علیہا [1]’’اگر تو اس حال میں مرجاتا تواس طریقہ اسلام کے خلاف مرتا جس پر اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا۔‘‘ یہ نماز کی عدمِ قبولیت کا واضح اور غیر مبہم اعلان ہے جو ارکانِ نماز کوبہ عجلت (جلدی جلدی) ادا کرنے کی صورت میں ہے جبکہ اس ہیئت پر نماز ادا کرنے والوں کی کمی نہیں ۔ عوام بے چارے تو ائمہ مساجد کے مرہونِ منت ہوتے ہیں اور اکثر ائمہ مساجد کا بھی یہی حال ہے۔ قیام بہ تساہل، رکوع سجود غیر تمام، قومہ جلسہ برائے نام، معمولی تشہد اور سلام۔ بسا اوقات کمزور مقتدی اپنے ’تگڑے‘ امام کی موافقت کرنے سے بھی عاجز آجاتے ہیں ممکن ہے کہ علامہ اقبال مرحوم نے ایسا ہی دل خراش منظر دیکھ کر کہا ہو: تیری نماز بے سرور، تیرا امام بے حضور ایسی نماز سے گزر ایسے امام سے گزر پھر اگر لفظ اقامت ِ صلوۃ پر بھی غور کیا جائے تو اس سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ تعدیلِ ارکان، حضورِ قلب، خشوع و خضوع، عجز و نیاز، اور دوام و مواظبت سے بروقت نماز ادا کرنے کا نام اقامت ِصلوٰۃ ہے۔ چنانچہ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’ قرآنِ مجید میں جہاں کہیں بھی نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، وہاں لفظ ’اقامت‘ استعمال کیا گیا ہے جس میں یہ تنبیہ موجود ہے کہ نما زسے مقصود اس کی ظاہری ہیئت ملحوظ رکھنا نہیں بلکہ اسے جملہ شرائط کے ساتھ ادا کرنا ہے۔‘‘[2] حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عباس رضی اللہ عنہ اقامت ِ صلوٰۃ کا معنی یوں بیان فرماتے ہیں کہ’’ فرائض نماز بجا لانا، رکوع، سجدہ، تلاوت، خشوع اور توجہ کو قائم رکھنا ’اقامت ِصلوٰۃ‘ ہے۔‘‘ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وقتوں کا خیال رکھنا، وضو اچھی طرح کرنا، رکوع سجدہ پوری