کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 87
رؤوف و رحیم کی رحمت اسے اپنی آغوش میں ضرور لے لیتی۔ کسی نے کیاخوب کہا ہے :
تم کو شکوہ ہے کہ ہمارا مدعا ملتا نہیں دینے والے کو گلہ ہے کہ گدا ملتا نہیں
بے نیازی بندے کی دیکھ کر کہتا ہے کریم دینے والا دے کسے ، کوئی دست ِ دعا ملتا نہیں
یہی وجہ ہے کہ اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ماسوا، خشوع و خضوع اور حضورِ قلب کے بغیر ادا کی جانے والی نماز قطعاً قرب ِالٰہی کا زینہ نہیں بن سکتی بلکہ ایسی نماز نمازی کے منہ پر ماری جائے گی، جیسا کہ طبرانی کی اس حدیث سے ظاہر ہے:
من صلاھا بغیر وقتھا ولم یسبغ وضوء ھا ولم یتم لھا خشوعھا ولا رکوعھا ولا سجودھا خرجت وھي سوداء مظلمۃ تقول: ضیعک ﷲ کما ضیعتني حتی إذا کانت حیث شاء ﷲ لُفَّت کما یلف الثوب الخلق ثم ضرب بھا وجھہ (المعجم الأوسط للطبراني:۷/۱۸۳)
یعنی ’’جس شخص نے نماز کو بے وقت پڑھا، وضو ٹھیک طرح سے نہ کیا اور دل بھی حاضر نہ رکھا، رکوع و سجود بھی خوب تسلی سے ادا نہ کئے تو ایسی نماز جب رخصت ہوتی ہے تو وہ نورانیت سے خالی سیاہ بھجنگ ہوتی ہے اور نمازی سے کہتی ہے: اللہ تجھے برباد کرے جس طرح تو نے مجھے برباد کیا یہاں تک کہ جب تھوڑی سی اونچی ہوتی ہے جس قدر اللہ تعالیٰ کو منظور ہو تو پرانے کپڑے کی طرح لپیٹ کر اس نمازی کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔‘‘
کیونکہ ایسی نماز میں چوری کا پہلو نمایاں ہے جس سے متعلق امامِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’بدترین چور وہ ہے جو اپنی نماز میں چوری کرتا ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم وہ نماز میں کیسے چوری کرتاہے؟ فرمایا: اس کی چوری یہ ہے کہ رکوع و سجود پورے اطمینان سے نہیں کرتا ۔[1]
اسکی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رحمت ِکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی شخص کی نماز اسوقت تک قبول ہی نہیں ہوتی جب تک کہ وہ رکوع و سجود میں اپنی پیٹھ کو سیدھا نہ کرے۔‘‘[2]