کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 86
سناتے ہیں ۔ پھر جب ایسے فرشتہ خصلت انسان کو کوئی موذی کبیدہ خاطر کرتا ہے یا اس پر لب کشائی کرتا ہے تو اس جبار و قہار کی طرف سے اعلان ہوتا ہے: ((من عادی لي ولیا فقد آذنتہ بالحرب)) [1]’’جس نے میرے اس دوست سے دشمنی مول لی، میں اس کے خلاف اعلانِ جنگ کرتا ہوں ۔‘‘ اس تعظیم و تکریم کے پیش نظر امامِ کائنات حضرت محمد کریم علیہ التحیۃ والتسلیم نے حکما ً فرمایا کہ ’’اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات برس کے ہوجائیں او رجب وہ دس برس کے ہوجائیں تو نماز چھوڑنے پر اُنہیں زدوکوب کرو، اور خواب گاہ میں ان کے بستر الگ الگ کردو۔‘‘[2] تاکہ نماز کے اثرات ابتدا ہی سے بچے کی شخصیت پر مرتب ہوں اور وہ منکرات سے کنارہ کش ہوکر حسنات کا طالب ہو اور اس کے نفس ِ اَمارہ کو خرابیوں کی حدود تک پہنچنے کا موقعہ ہی نہ ملے اور نماز اسے غلط کاریوں کے اندھیروں سے بھلائی کے اُجالوں کی طرف رہنمائی کرے۔ یہ تربیت نہ صرف اُسے بلوغت و شباب کی بہیمیت و سبعیت (درندگی) کے اثرات سے محفوظ رکھے گی بلکہ وہ جنونِ شباب کے ایام میں بھی عبادتِ الٰہی پر دوام و مواظبت کرکے روزِ محشر عرشِ الٰہی کے سایہ تلے جگہ بھی حاصل کرسکے گا۔[3] نماز میں ایسی تاثیرودیعت کی گئی ہے کہ نمازی بے حیائی اور برائی کے قریب تک بھی نہیں جاتا ہے اور جو شخص نمازی ہوکر بھی خیرات و حسنات سے پہلو تہی کرکے سیئات کے جال میں پھنس چکا ہو، اس کی نماز عدمِ قبولیت کے زمرہ میں ہے۔ ایسا شخص ربّ ذوالجلال کے قرب ودیدار سے شرف یاب نہیں ہوسکتا بلکہ وہ اس مالک ِحقیقی سے دور ہی ہوتا چلا جائے گا۔[4]کیونکہ اس نے نماز کو کماحقہ ادا ہی نہیں کیا، نمازی ہونے کے باوجود اسے قرب کی بجائے بعد نصیب ہوا اور اگروہ ربّ کائنات کی طرف عاجزی و انکساری اور خشوع و خضوع کے ساتھ متوجہ ہوتا تو اس