کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 85
الزَّکٰوۃِ …الآیۃ﴾[1] کے تحت دنیا و مافیہاسے مستغنی ہوکر کامل یکسوئی کے ساتھ متوجہ اِلی اﷲ ہوتا ہے اور((أن تعبد ﷲ کأنک تراہ فإن لم تکن تراہ فإنہ یراک)) [2]کا مصداق بنتا ہے کیونکہ وہ جملہ اُمور میں اپنا مقصودِ اصلی خالق کائنات کی رضا مندی اور خوشنودی کو گردانتا ہے ۔پھر ان صفات کا حامل نمازی کذب بیانی، ہرزہ سرائی، یاوہ گوئی، غیبت چغلی، خیانت، بدعہدی، تکبر و حسد، ظلم و زیادتی وغیرہ اخلاقِ رذیلہ سے کنارہ کش ہوجاتا ہے کیونکہ
﴿إنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَائِ وَالْمُنْکَرِ﴾[3]
پھر جس طرح اس کا دل عبودیت و فدائیت کا مظہر ہوتا ہے، بعینہٖ اس کے جملہ اعضا بھی مکروہات و منہیات سے کنارہ کش ہو کر مصروفِ عبادت ہوجاتے ہیں جس سے اس کے دل میں سوز و گداز پیدا ہوتا ہے۔ چہرہ منور اور اس کی روح اَفلاکی بلندیوں پر فائز ہوتی ہے، ایسے انسان کے حرکات و سکنات، جلوس وقعود، اور سمع و بصر مشیت ِالٰہی کے مطابق ہوتے ہیں ۔[4] بایں ہمہ اگر وہ خطا کا مرتکب ہوبھی جائے تو ﴿إنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ﴾ کا پرمسرت اعلان[5] اس رنجیدہ خاطر کے لئے تسکین ِ قلبی کا سامان پیدا کرتا ہے، اگر اصلاحِ عمل کے بعد بھی حسرت و اَرمان باقی رہے تو ربّ ذوالجلال والاکرام اس حسرت خوردہ انسان کو ﴿فَاُوْلٰئِکَ یُبَدِّلُ ﷲُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنَاتٍ وَکَانَ ﷲُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا﴾[6] کا مژدہ