کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 84
میں اپنے صغائر وکبائر کی گٹھڑی ڈال کر اس غفور رحیم سے عفو و کرم کی درخواست کرکے قیامت کی ہولناکیوں اور اس کے مہیب مناظر سے مامون ہوسکے[1] کیونکہ قیامت کے دن سب سے پہلے باز پرس نما زکی ہوگی۔ اگر نماز اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق صحیح ہوگی تو باقی اَعمال بھی صحیح ہوں گے۔ بصورت ِ دیگر تمام اعمال کالعدم قرار دیے جائیں گے۔ فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ((أول ما یحاسب بہ العبد یوم القیامۃ الصلوۃ فإن صلحت صلح سائر عملہ وإن فسدت فسد سائر عملہ)) [2]سے بھی یہی چیز مترشح ہوتی ہے۔
امامِ اعظم حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام اور دیگر مذاہب کے مابین نماز کو حد فاصل[3]قرار دے کر نماز کی اہمیت کو واضح فرما دیا کیونکہ دنیا و عقبیٰ کی کامیابی اور کامرانی کا سرچشمہ نماز ہی ہے۔ ارشادِ الٰہی ﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ ھُمْ فِيْ صَلَاتِھِمْ خَاشِعُوْنَ﴾[4] میں بھی یہی بتلایا گیا ہے۔
خشوع و خضوع اور اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ادا شدہ نماز سے دل میں نور وغنا پیدا ہوتا ہے اور ربّ کائنات کے جاہ و جلال اور اس کی عظمت و کبریائی کی دل میں تخم ریزی ہوتی ہے جو انسان کو صداقت و شرافت، صبر و قناعت، تسلیم و رضا، حلم و بردباری، تواضع و انکساری، عدل وانصاف، وفاشعاری اور احسان مندی جیسے مکارمِ اخلاق سے آراستہ و پیراستہ کرتی ہے۔ پھر انسان ﴿رِجَالٌ لَا تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ ﷲِ وَإِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَـآئِ