کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 82
اور اگر کوئی قربانی کرنے والا اس فعل کا ارتکاب کربیٹھے تو اسے چاہئے کہ اللہ سے توبہ کرے اور دوبارہ یہ گناہ نہ کرے۔ اس گناہ کا کفارہ وغیرہ کچھ نہیں ہے اور نہ ہی یہ فعل اس کی قربانی میں اثرانداز ہوتا ہے۔ اور اس نے اپنے بال وغیرہ بھول کر یا کم علمی کی وجہ سے کاٹ لئے یاخود ہی گرگئے تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ایسی حالت کہ جس میں یہ چیزیں کاٹنا ضروری ہوجائیں کاٹی جاسکتی ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں، مثلاً ناخن جلد کو تکلیف دے رہا ہے تو کاٹا جاسکتا ہے۔ اسی طرح وہ بال جو آنکھوں میں گرتے ہیں اور آنکھیں دکھتی ہیں یا پھر زخموں کا علاج کرنے کے لئے چیزوں کو کاٹنا پڑتا ہے۔ جہاں تک قربانی استطاعت نہ رکھنے والے مسلمانوں کا تعلق ہے تو علما کرام کا یہ موقف ہے کہ وہ اگر قربانی کے ثواب میں شریک ہونا چاہتے ہیں تو وہ بھی اپنے بال یا ناخن وغیرہ کاٹنے سے گریز کریں۔ اس مسئلہ کی بنیاد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسب ِذیل فرمان ہے: ’’ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میرے پاس محض دودھ کے لئے ایک بکری ہے، کیا میں اس کو بھی قربان کردوں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ نہیں لیکن تو عید کے روز اپنے ناخن اور بال کاٹ لے، ا س سے تجھے بھی قربانی کا ثواب مل جائے گا۔‘‘ (سنن ابو داود:۲۷۸۹’حسن‘) مسلمانو! اس عظیم کام کے لئے آگے بڑھئے اور ان محروم لوگوں کی طرح نہ ہوجائیے کہ سارا سال مالِ کثیر خرچ کرتے ہیں اور جانور بھی ذبح کرتے ہیں لیکن جب عید کا وقت آتا ہے تو قربانی خریدنے میں سستی اور لاپرواہی برت جاتے ہیں۔ اے اللہ! ہمیں یہ دن ہر سال دیکھنا نصیب فرما اور ہمیں اپنے نیک بندوں میں شامل فرما لے۔ ہمیں، ہمارے والدین اور تمام مسلمانوں کی بخشش فرما۔ آمین! وصلی ﷲ علی نبینا محمد وعلی آلہ وصحبہ أجمعین