کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 74
اللجنۃ الدائمۃ للإفتائ کے ایک فتویٰ میں اس کی صراحت یوں کی گئی ہے:
یشرع في عید الأضحی التکبیر المطلق،والمقید،فالتکبیر المطلق في جمیع الأوقات من أوّل دخول شھر ذي الحجۃ إلی آخر أیام التشریق۔ وأما التکبیر المقید فیکون في أدبار الصلوات المفروضۃ من صلاۃ الصبح یوم عرفۃ إلی صلاۃ العصر من آخر أیام التشریق،وقد دل علی مشروعیۃ ذلک الإجماع،وفعل الصحابۃ (فتاوی اللجنۃ الدائمۃ:۱۰/۳۱۷ )
’’عیدالاضحی میں تکبیر مطلق اور تکبیر مقید دونوں مشروع ہیں۔ ذی الحجہ کے مہینہ کے شروع سے ایامِ تشریق کے آخر تک تکبیروں کو تکبیر مطلق کہتے ہیں جبکہ تکبیر مقید یہ ہے کہ عرفہ کے دن صبح کی نماز کے بعد سے لے کر ایامِ تشریق کے آخری دن عصر تک فرض نمازوں کے بعد تکبیرات کہی جائیں۔ اس عمل کی مشروعیت پر اجماع اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل دلیل ہے۔‘‘
اسی طرح شیخ عُثیمین رحمۃ اللہ علیہ سے استفسار کیا گیا کہ نمازوں کے بعد مسنون اذکار، مثلاً استغفار وغیرہ سے پہلے تکبیریں پڑھی جاسکتی ہیں؟
تواُنہوں نے جواب دیا:
إن الاستغفار واللھم أنت السلام؛ ألصق بالصلاۃ من التکبیر فالاستغفار عقب الصلاۃ مباشرۃ لأن المصلي لا یتحقق أنہ أتقن الصلاۃ بل لابد من خلل
’’بے شک استغفر ﷲ اور اللھم أنت السلام کو تکبیرات سے پہلے نماز کے ساتھ ملا دیں۔ نماز کے متصل بعد استغفار کی وجہ یہ ہے کہ نمازی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ اس سے نماز میں کوئی قصور واقع نہیں ہوا بلکہ نماز میں نقص پیدا ہو ہی جاتا ہے۔‘‘ (جس کی معافی نمازی نماز کے فوراً بعد اللہ سے طلب کرلیتا ہے)
تکبیرات کے الفاظ[1]
1. ﷲ أکبر، ﷲ أکبر،ﷲ أکبر کبیرًا (بیہقی:۳/۳۱۶)
2. ﷲ أکبرکبیرا، ﷲ أکبرکبیرا،ﷲ أکبروأجل،ﷲ أکبروﷲ الحمد ( مصنف ابن ابی شیبہ:۲/۱۶۷)