کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 73
’’اِن دِنوں میں کثرت کے ساتھ تہلیل، تکبیر اور تحمید کیا کرو۔‘‘[1] امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا بیان ہے کہ’’کان ابن عمر وأبوھریرۃ یخرجان إلی السوق في أیام العشر یکبِّران ویکبر الناس بتکبیرھما‘‘ ’’حضرت عبداللہ بن عمر اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہما ذوالحجہ کے پہلے دس دنوں میں بازار میں نکل جاتے اور تکبیریں بلند کرتے اور لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیریں کہنے میں مل جاتے۔‘‘ (صحیح بخاری قبل حدیث ۹۶۹) ایک اور مقام پر فرماتے ہیں : ’’وکان عمر یکبر في قبتہ بمنی فیسمعہ أھل المسجد فیکبرون ویکبر أھل الأسوق حتی ترتجَّ منٰی تکبیرا‘‘ ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ منیٰ میں اپنے خیمہ میں تکبیریں بلند کرتے جسے مسجد کے لوگ سنتے اور تکبیریں کہتے اور بازار والے بھی تکبیریں کہناشروع کردیتے حتیٰ کہ منیٰ تکبیروں سے گونج اٹھتا۔‘‘ (صحیح بخاری قبل حدیث ۹۷۰) ابن عمر رضی اللہ عنہ اِن دِنوں میں منیٰ میں تکبیریں کہتے اور ان کی تکبیریں کہنے کا یہ سلسلہ نمازوں کے بعد، بستر پر، خیمہ میں ، مجلس میں اور چلتے پھرتے، سارے دِنوں میں جاری رہتا۔ مردوں کے لئے اونچی آواز میں تکبیریں کہنا مستحب ہے، جیساکہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے جبکہ عورتیں یہ تکبیرات پست آواز میں کہیں ۔ اُمّ عطیہ فرماتی ہیں : ۔۔۔حتی نخرج الحیض فیکن خلف الناس فیکبرن بتکبیرھم ویدعون بدعائھم ۔۔۔ (صحیح بخاری:۹۷۱) ’’ حتیٰ کہ ہم حیض والیوں کو بھی عیدگاہ کی طرف نکالیں اور وہ لوگوں کے پیچھے رہیں ان کی تکبیروں کے ساتھ تکبیریں کہیں اور ان کی دعاؤں کے ساتھ دعائیں کریں ۔‘‘ ہم مسلمان ہیں اور ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ایسی سنت جو اَب متروک ہوتی جا رہی ہے کا احیا کریں ، وگرنہ قریب ہے کہ یہ سنت جس پرسلف صالحین کاربند تھے، اہل خیر و اصلاح کو بھی بھلا دی جائے۔ تکبیر دو طرح ہے : 1. مطلق 2. مقید