کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 72
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار کام نہیں چھوڑتے تھے، عاشورا کا روزہ، عشرہ ذوالحجہ[1] کے روزے، اور ہر مہینے کے تین دن (ایام بیض)کے روزے اور فجر کی دو سنتیں ۔‘‘ (مسند احمد:۶/۲۸۷)
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((ما من عبد یصوم یوما في سبیل ﷲ إلا باعد ﷲ بذلک الیوم وجھہ عن النار سبعین خریفا))
’’جو آدمی اللہ کے رستے میں ایک دن کا روزہ رکھتا ہے، اللہ اس کے اور جہنم کے درمیان ستر سال کی دوری ڈال دیتے ہیں ۔‘‘(بخاری:۲۸۴۰، مسلم:۱۱۵۲)
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ عشرہ ذوالحجہ کے روزوں کے متعلق فرماتے ہیں :
’’ ان کا رکھنا بہت زیادہ پسندیدہ ہے ۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عرفہ کے روزہ کو ذوالحجہ کے دس دنوں میں خاص کرنے کی وجہ اس کی فضیلت کو ظاہر کرنا تھا جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((صیام یوم عرفۃ احتسب علی ﷲ أن یکفر السنۃ التی قبلہ والتي بعدہ)) ( صحیح مسلم:۱۱۶۲) ’’عرفہ کے دن کاروزہ رکھنا،مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ایک سال قبل اور ایک سال بعد کے گناہوں کا کفارہ بنا دے۔‘‘
4. حج و عمرہ کی ادائیگی
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((والحج المبرور لیس لہ جزاء إلا الجنۃ)) (صحیح بخاری:۷۷۶)
’’حج مبرور کی جزا تو صرف جنت ہے۔‘‘
اور فرمایا:((من حج ھذا البیت فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ أمہ)) (صحیح بخاری:۱۸۲۰)
’’جس شخص نے اللہ کے گھرکا حج کیا اور بے ہودگی و فسق سے بچا رہا تو اس حالت میں لوٹے گا جیسے آج ہی ماں کے بطن سے پیدا ہوا ہو۔‘‘
5. تکبیر، تہلیل اورتحمید
ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت پہلے گزر چکی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: