کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 66
16. جو آدمی قربانی کرنا چاہتا ہو وہ ذوالحجہ کا چاند دیکھ لینے کے بعد قربانی ذبح کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے۔ نیز جو کوئی قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو تو وہ بھی اگر یہ عمل اپنائے تو اللہ تعالیٰ اسے بھی اجروثواب سے نوازے گا۔ (صحیح مسلم، سنن ابوداؤد) مسنون طریقۂ قربانی: قربانی کے جانور کو اس طرح زمین پر لٹائیں کہ اس کا پیٹ اور منہ قبلہ رُخ ہو، پھر بائیں ہاتھ میں اس کا منہ پکڑ لیں جبکہ دایاں پاؤں اس کی گردن پررکھیں اور پھر تکبیر یعنی ((بسم ﷲ،ﷲ أکبر)) پڑھ کر ذبح کردیں ۔(صحیح بخاری، صحیح مسلم) ذخیرۂ احادیث میں اور بہت سی دعائیں بھی موجود ہیں جنہیں بوقت ِقربانی پڑھا جاسکتا ہے۔ فلسفہ قربانی 1. اللہ تعالیٰ کی عبادت کا اجتماعی طور پرمنظر پیدا ہوجاتاہے۔ 2. مسلمانوں کی اجتماعی قوت نمایاں طور پر ظاہر ہوجاتی ہے۔ 3. جن لوگوں کو سال بھر گوشت دیکھنا نصیب نہیں ہوتا، انہیں بھی قربانی کے روز وافر مقدار میں گوشت مل جاتاہے۔ 4. قربانی کی کھالوں سے غربا، فقرا اور مساکین وغیرہ کی مالی امداد ہوجاتی ہے۔ 5. مختلف مصنوعات جو کہ چمڑے اور ہڈیوں سے بنائی جاتی ہیں ، ان کے لئے وافر مقدار میں میٹریل مہیا ہوجاتاہے۔ قربانی سے اللہ تعالیٰ کو کیامطلوب ہے؟ اگر دیکھا جائے تو قربانی کے جانور کا گوشت پوست ہمارے کام آتا ہے بلکہ اس کے کھالوں اور بالوں وغیرہ سے ہم ہی فائدہ اُٹھاتے ہیں ، پھر اللہ تعالیٰ کو قربانی سے کیامطلوب ہے؟ وہ اس سے کیا چاہتا ہے؟تو جواب میں یہ آیت ِمبارکہ سامنے آجاتی ہے کہ ﴿لَنْ یَّنَالَ ﷲَ لُحُوْمُھَا وَلَا دِمَائُھَا وَلٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ﴾ ( الحج:۳۷) ’’ اللہ تعالیٰ کو تمہاری قربانیوں کا گوشت و خون نہیں پہنچتا بلکہ اس کے پاس تو تقویٰ پہنچتا ہے۔‘‘ معلوم ہواکہ اللہ تعالیٰ کو تو صرف اور صرف اخلاص و تقویٰ مطلوب ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ قربانی جیسے عظیم عمل میں ہر قسم کے دکھاوے سے بچنا چاہئے اور صرف رضاے الٰہی کے لئے قربانی ہونی چاہئے کیونکہ وہ تو سینوں کے بھیدوں کو بھی جاننے والا ہے۔