کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 65
کے خون کے قطرے زمین پر گرنے سے قبل ہی گناہِ (صغیرہ) معاف ہوجاتے ہیں ۔ (صحیح مسلم، مسند بزار) 7. قربانی نماز ِ عید پڑھنے کے بعدذبح کرنی چاہئے کیونکہ جو قربانی قبل از نماز عید کی جائے وہ قربانی شمار نہیں ہوتی بلکہ عام صدقہ ہوگا۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم) 8. ایک جانور پورے گھر یعنی اہل خانہ کی طرف سے کافی ہوتا ہے۔(سنن ابوداؤد) ہاں اگر کوئی استطاعت رکھتا ہو تو ہر فرد کی طرف سے الگ الگ قربانی بھی کی جاسکتی ہے۔ ( بخاری) 9. کسی فوت شدہ شخص کی طرف سے بھی قربانی کرنا جائز ہے مگر اس وقت کہ جب آدمی خود بھی اپنی طرف سے قربانی دے اور میت کے لئے علیحدہ دے۔ (صحیح مسلم، سنن ابوداؤد، جامع ترمذی) 10. گائے میں سات حصے دار اور اونٹ میں بھی سات حصے دار شریک ہوسکتے ہیں ۔ (صحیح مسلم) ایک دوسری روایت کے مطابق اونٹ میں دس حصے دار بھی شریک ہوسکتے ہیں ۔ (مسند احمد، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ) 11. قربانی کا گوشت تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے: ۱۔ اپنے لئے ۲۔ اپنے عزیز و اقارب، دوست احباب اور ہمسایوں کے لئے ۳۔ غربا، فقراء اور مساکین کیلئے (تفسیر ابن کثیر،سورۃ الحج اور الشرح المُمتع :۷/۴۸۱۔۴۸۲) 12. قربانی کی کھال اور گوشت قصاب کو ہرگز نہ دیں بلکہ ذبح کرنے کی اُجرت علیحدہ دیں اور کھال صدقہ کردیں ۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم) 13. قربانی کی کھالیں وہیں استعمال کریں جہاں زکوٰۃ استعمال ہوسکتی ہے،جیساکہ دینی مدارس، غربا، فقرا اورمساکین وغیرہ۔ (تفسیر ابن کثیر) 14. قربانی کی رقم کسی دوسرے اچھے کام پر خرچ کرنے سے نہ تو قربانی کا ثواب ملتا ہے اور نہ ہی یہ قربانی کابدل بن سکتا ہے۔ (سنن دارقطنی) 15. عید الاضحی کی نماز سے پہلے کچھ نہ کھانا اور بعد میں قربانی کا گوشت کھانا سنت ہے۔ (مسنداحمد، جامع ترمذی، صحیح ابن حبان)