کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 63
٭ ایک اور حدیث ِمبارک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:((من ضحّٰی طیبۃ نفسہ محتسبا لأضحیتہ کانت لہ حجابا من النار))
(معجم کبیراز طبرانی، جامع الصغیر)
’’ جس نے خوشی کے ساتھ قربانی کی اور اللہ تعالیٰ سے اجروثواب کی اُمید بھی رکھی تو یہ قربانی اس کے لئے جہنم کے مقابلہ میں ڈھال بن جائے گی۔‘‘٭
اہم مسائل قربانی
قربانی کے جانور کو خریدتے وقت اچھی طرح چیک کرلیں تاکہ بعد میں کوئی پریشانی نہ ہو کیونکہ بازاروں اور منڈیوں میں رطب و یابس دونوں طرح کی اشیا موجود ہوتی ہیں ۔ مسائل واحکامِ قربانی کتب ِاحادیث اور کتب ِفقہ میں تفصیلی طور پر موجود ہیں ، ذیل میں ہم چند اہم اور ضروری مسائل کا بالترتیب اور بحوالہ تذکرہ کرتے ہیں ۔ اِن شاء اللہ
1. بکرا ہو، مینڈھا ہو، گائے ہو یا اونٹ سب کے لئے ضروری ہے کہ وہ مُسِنَّۃ ہوں ، ہاں اگر کسی مجبوری کے پیش نظر مُسنۃ نہ ملے تو پھر بھیڑ کا جَذْعَۃ بھی کیا جاسکتا ہے:((لا تذبحوا إلا مسنۃ إلا أن یعسر علیکم فتذبحوا جذعۃ من الضأن)) (صحیح مسلم : ۱۹۶۴)
حدیث ِمذکور میں موجود لفظ مُسِنّۃ کے بارے اہل علم کے ہاں اختلاف پایا جاتا ہے، بعض کے نزدیک اس سے مراد دو دانتوں والا یعنی دوندا جانور ہے اور بعض کے نزدیک اس سے مراد ایک سال تک کی عمر کا جانور ہے۔ جبکہ راجح قول یہی ہے کہ مُسنَّۃ سے مراد دوندا جانور ہے۔ جیسا کہ لغات، شرحِ مشکوٰۃ، مجمع البحار اور تاج العروس وغیرہ میں مذکور ہے۔ پھر ایک اور حدیث سے اس قول کی تائید ملتی ہے جس کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں :
((ضحوا بالثنایا)) (نصب الرایۃ للزیلعي :۴/۲۱۶)
’’یعنی تم دو دانتوں والے (دوندے) جانوروں کی قربانی کیا کرو۔‘‘
مندرجہ بالا احادیث و اقوال سے ثابت ہوا کہ قربانی کے لئے جانور کا مُسنَّۃ ہونا ضروری ہے جبکہ مسنۃ سے مراد دوندا جانور ہی ہے۔ صحیح مسلم کی مذکورہ روایت میں یہ بھی ثابت ہے
____________________
٭ ’ فضائل قربانی ‘ اور ’ حقیقت قربانی ‘ کے زیر عنوان ذکر کردہ تمام احادیث کو علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن واضح رہے کہ اس سے قربانی کی اہمیت یا سنت مؤکدہ ہونے پر کوئی فرق واقع نہیں ہوتا ، مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : ’ فضائل قرانی کی احادیث کا علمی و تحقیقی جائزہ ‘ از غازی عزیر مبارکپوری ( محدث ، اپریل 1993ء)
[1] تاریخ دمشق : ۲۶/۱۴
[2] مجموع فتاویٰ ابن باز: ۶/۳۹۳
[3] التاریخ الطبري: ۴/۲۱۸