کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 62
مذکورہ بالا احادیث سے ثابت ہوا کہ جو شخص قربانی کی استطاعت رکھتا ہو، اسے لازمی طور پر قربانی کرنی چاہئے بلکہ ایک جگہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:((یاأیھا الناس إن علی کل أھل بیت في کل عام أُضحِیَۃ)) ( ابوداؤد:۲۷۸۸)
’’ اے لوگو! ہر اہل خانہ پر ہر سال قربانی دینا ضروری ہے۔‘‘ (قال الالبانی:’حسن ‘)
اس بنا پربعض ائمہ کرام نے قربانی کو صاحب ِاستطاعت پر ’واجب‘ بھی قرار دیا ہے۔
فضائل قربانی
٭ قربانی اور قربانی دینے والے کی فضیلت میں کئی ایک احادیث منقول ہیں ، جیسا کہ ایک مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
((ما عمل آدمي من عمل یوم النحر أحب إلی ﷲ من إھراق الدم إنھا لتأتي یوم القیامۃ بقرونھا وأشعارھا وأظلافھا وأن الدم لیقع من ﷲ بمکان قبل أن یقع من الأرض فطیبوا بھا نفسا)) (ترمذی :۱۴۹۳، ابن ماجہ:۱۳۲۶)
’’اللہ تعالیٰ کو عید الاضحی کے دن قربانی سے بڑھ کر کوئی بھی عمل زیادہ محبوب نہیں ہوتا، بیشک روزِ قیامت قربانی کے جانور کا ثواب، سینگوں ، بالوں اور کھروں سمیت ملے گا اورقربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل ہی قربانی بارگاہ الٰہی میں قبول ہوجاتی ہے، لہٰذا بخوشی قربانی کیا کرو۔‘‘
٭ ایک دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بایں الفاظ فضیلت قربانی کا تذکرہ فرمایا:
((استفرھوا ضحایا کم فإنھا مطایاکم علی الصراط))
’’یعنی موٹے اور تازے جانوروں کی قربانی کیا کرو، کیونکہ وہ پل صراط پر تمہاری سواریاں ہوں گے۔‘‘ (تلخیص الحبیر:۴/۱۳۸، کنزالعمال:۱۲۱۷۷)
حقیقت ِ قربانی اور اس کا اجرو ثواب
٭ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک دن عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ قربانی کیا چیز ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:((سنۃ أبیکم إبراھیم)) یعنی’’ یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔‘‘
٭ پھر عرض کیا کہ ان قربانیوں کا اجر و ثواب کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’پورے جسم کے ہر بال کے بدلے ایک ایک نیکی ملے گی۔‘‘ ( سنن ابن ماجہ:۳۱۲۷)
[1] السنن الکبریٰ للبیہقي: ۹/۲۰۵
[2] الفروق : ۳/۱۴
[3] یعنی وہ ذمی کے ساتھ اُلجھ رہا تھا ۔