کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 61
مذکور ہے کہ سب سے پہلے ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کے دونوں بیٹوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قربانی پیش کی، ایک بیٹے کی قربانی قبول ہوگئی جبکہ دوسرے کی ردّ کردی گئی۔ قربانی کا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا، یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے اپنے پیارے لخت ِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی اللہ کی راہ میں پیش کردی اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس قربانی کو شرف ِ قبولیت بخشتے ہوئے ان کے بیٹے کی جگہ جنت سے بھیجے گئے دُنبے کو ذبح کروا دیا۔ قربانیوں کا یہ سلسلہ بدستور جاری رہا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے حبیب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بذریعہ وحی قربانی دینے کا حکم فرمایا: ﴿إِنَّا أَعْطَیْنٰکَ الْکَوْثَرَ فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ﴾ (الکوثر:۱،۲) ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے آپ کو خیر کثیر عطا فرمائی، لہٰذا آپ اپنے ربّ کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی بھی دیں ۔‘‘ اہمیت ِ قربانی قربانی کی اہمیت کا اندازہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اِس حدیث ِپاک سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من وجد سِعَۃ فلم یُضَحِّ فلا یَقربنّ مُصلانا)) (سنن ابن ماجہ:۱۲۳ قال الالبانی:’حسن‘، مسندساحمد:۲/۳۲۱) ’’جو آدمی قربانی کرنے کی استطاعت رکھتا ہو، پھر بھی قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عید گاہ میں داخل نہ ہو۔‘‘ ایک دوسری حدیث سے بھی قربانی کی اہمیت واضح ہوتی ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں : ((أقام رسول ﷲ بالمدینۃ عشر سنین یُضحّی))’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں دس سال مقیم رہے اور ہر سال قربانی دیا کرتے تھے۔‘‘ (جامع ترمذی:۱۵۰۷) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری سال حجۃ الوداع کے موقع پر سو (۱۰۰) اونٹ نَحر(قربان)کئے جن میں سے تریسٹھ (۶۳) کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست ِمبارک سے ذبح کیا اور باقی کو ذبح کرنے کا کام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کیا اور اس کے ساتھ اپنی ازواجِ مطہرات کی طرف سے ایک گائے بھی ذبح فرمائی۔ (صحیح مسلم :۱۲۱۸)
[1] الأحکام السلطانیۃ:۱۴۳،موقف الإسلام من غیر المسلمین في المجتمع الإسلامي:۲۱۱ [2] صحیح مسلم: ۴۶۷۴ [3] الجامع الصغیر : ۸۳۷۰ [4] ایضاً