کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 60
عبادات فیض احمد بھٹی
متعلّم مدینہ یونیورسٹی
قربانی اور مسائل
اللہ کریم کو اپنے بندوں سے بہت محبت ہے اوروہ نہیں چاہتا کہ اس کا کوئی بندہ نارِ جہنم کا ایندھن بنے، اِسی لئے اس نے اپنے انبیاے کرام کے ذریعے اپنے بندوں کے لئے جنت کے راستے ہموار کئے اور ایسے ایسے عظیم اور آسان طریقے اور ذرائع مقرر کئے کہ جنہیں اپناکر انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہوجاتا ہے، دنیا و آخرت کی ذلت و رسوائی سے محفوظ ہوجاتاہے اور جنت الفردوس اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اُن طریقہ جات اور ذرائع میں سے قربانی کرنا بھی ایک ایسا عظیم الشان عمل ہے کہ جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی قربت نصیب ہوجاتی ہے اور اس کی دنیا و آخرت بھی سنور جاتی ہے۔
لفظ ِ’ قربانی‘ کامعنی و مفہوم
لفظ قُرْبَانِيّ قَرَبَ یَقْرُبُ سے مصدر بر وزن فُعْلان ہے جبکہ بعض اقوال کے مطابق یہ لفظ صیغہ اسم فاعل بروزن ضُربان ہے اور بعد میں اس کے آخر میں یاے نسبتی لگا دینے سے لفظ قُرباني بن گیا۔ (لسان العرب:۱/۶۶۲،۶۶۵)
اب یہ لفظ اُن جانوروں کے لئے عَلم کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جو عیدالاضحی کے دن اللہ تعالیٰ کے لئے ذبح کئے جاتے ہیں ۔ اس اعتبار سے قُربانی کا معنی یہ ہوا کہ قریب کردینے والی۔کیونکہ یہ عمل انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کردیتا ہے، اس لئے اسے قربانی کہتے ہیں ۔
قربانی کی ابتدا
قرآنِ حکیم کی اس آیت ِمبارکہ ﴿وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوْا اسْمَ ﷲِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِنْ بَھِیْمَۃِ الاَنْعَامِ﴾(الحج:۳۴)سے معلوم ہوتاکہ قربانی شروع ہی سے ہر اُمت یعنی ہر قوم پر مقرر کی گئی تھی جبکہ قربانی دینے کے طریقے مختلف تھے۔ قرآنِ مجید میں یہ
[1] الرسالۃ القبرصیۃ :۴۰، سماحۃ الإسلام، از حوفی : ۳۹ اور غیر المسلمین فی المجتمع الإسلامي: ۱۰
[2] البدایۃ والنہایۃ : ۱۴/ ۳۲۰۔۳۲۱