کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 57
اُنہوں نے آباد دنیاکے ناپاک حصوں سے کنارہ کش ہوکر ایک’وادیٔ غیر ذی زرع‘ میں سکونت اختیارکی۔ وہاں ایک دارالامن بنایا اور تمام دنیاکو صلح و سلام کی دعوتِ عام دی۔ اب ان کی صالح اولاد سے یہ دارالامن بھی چھین لیاگیا تھا۔ اس لئے اس کے واپسی کے لئے پورے دس سال تک اس کے فرزند نے بھی باپ کی طرح میدان میں ڈیرہ ڈالا۔ فتح مکہ نے جب اس کا مامن و ملجا واپس دلا دیا تو وہ اس میں داخل ہوا کہ باپ کی طرح تمام دنیا کو’گم شدہ حق کی واپسی‘ کی بشارت دے۔ چنانچہ وہ اونٹ پر سوار ہوکر نکلا اور تمام دنیا کو مژدۂ امن و عدالت سنایا: خطبہ حجۃ الوداع ((إن دماء کم وأموالکم علیکم حرام کحرمۃ یومکم ھذا في شہرکم ھذا في بلدکم ھذا،ألا إن کل شی من أمر الجاھلیۃ تحت قدمي موضوع ودماء الجاھلیۃ موضوعۃ وأول دم أضعہ دماء نا دم ابن ربیعۃ وربا الجاھلیۃ موضوع وأول ربا أضعہ ربانا ربا عباس بن عبد المطلب۔۔۔ اللھم اشہد۔۔۔ )) ( صحیح مسلم:۱۲۱۸، ابوداود :کتاب المناسک،باب صفۃ حجۃ النبي ) ’’جس طرح تم آج کے دن کی، اس مہینہ کی، اس شہر مقدس کی حرمت کرتے ہو، اسی طرح تمہارا خون اور تمہارا مال بھی تم پر حرام ہے۔ اچھی طرح سن لو کہ جاہلیت کی تمام بری رسموں کو آج میں اپنے دونوں قدموں سے کچل ڈالتا ہوں ۔ بالخصوص زمانۂ جاہلیت کے انتقام اور خون بہا لینے کی رسم تو بالکل مٹا دی جاتی ہے، میں سب سے پہلے اپنے بھائی ابن ربیعہ کے خون کے انتقام سے دست بردار ہوتا ہوں ۔ جاہلیت کی سود خوری کا طریقہ بھی مٹا دیا جاتا ہے اور سب سے پہلے خود میں اپنے چچا عباس ابن عبدالمطلب کے سود کو چھوڑتا ہوں ۔ خدایا تو گواہ رہنا! خدایا تو گواہ رہنا!! خدایا تو گواہ رہنا کہ میں نے تیرا پیغام تیرے بندوں تک پہنچا دیا۔‘‘ تکمیلِ دین الٰہی اب حق پھر اپنے اصلی مرکز پر آگیا، اور باپ نے دنیاکی ہدایت و ارشاد کے لئے جس نقطہ سے پہلا قدم اُٹھایا تھا، بیٹے صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی سفر کی وہ آخری منزل ہوئی، اور اسی نقطے پر پہنچ کر اسلام کی تکمیل ہوگئی، اس لئے کہ اس نے تمام دنیا کو مژدۂ امن سنایاتھا، آسمانی فرشتے نے بھی
[1] صحیح البخاري:۷۳۰۰ [2] سنن ابن ماجہ: ۲/۸۹۵ [3] صحیح البخاري: ۳۱۷۱ [4] غیر المسلمین في المجتمع الإسلامي:۹تا۱۱