کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 56
قربانی کی حقیقت واضح کی گئی اور بتایا گیاکہ وہ صرف ایثارِ نفس و فدویت ِجان و روح کے اظہار کا ایک طریقہ ہے، اس کا گوشت یا خون خدا تک نہیں پہنچتا کہ اس کے چھاپہ سے دیواروں کو رنگین کیا جائے۔ خدا تو صرف خالص نیتوں اور پاک و صاف دلوں کو دیکھتا ہے۔
﴿لَنْ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوْمُھَا وَ لَا دِمَآؤُھَا وَ لٰکِنْ یَّنَالُہُ التَّقْوٰی مِنْکُمْ﴾ (الحج:۳۷)
’’خدا تک قربانی کے جانوروں کا گوشت و خون نہیں پہنچتا بلکہ اس تک صرف تمہاری پرہیزگاری پہنچتی ہے۔‘‘
یہ چھلکے اُتر گئے تو خالص مغز ہی مغز باقی رہ گیا۔ اب وادیٔ مکہ میں خلوص کے دو قدیم وجدید منظر نمایاں ہوگئے، ایک طرف آبِ زمزم کی شفاف سطح لہریں لے رہی تھی، دوسری طرف ایک جدید النشأۃ قوم کا دریا ے وحدت موجیں مار رہا تھا۔
اعلانِ عام و حجۃ الوداع
لیکن دنیا اب تک اس اجتماعِ عظیم کی حقیقت سے بے خبر تھی۔ اسلام کی ۲۳سالہ زندگی کا مدو جزر تمام عرب دیکھ چکا تھا، مگر کوئی نہیں جانتا تھا کہ اسلام کی تاریخی زندگی کن نتائج پر مشتمل تھی، اور مسلمانوں کی جدوجہد، فدویت، ایثارِ نفس و روح کا مقصد ِاعظم کیا تھا؟ اب اس کی توضیح کا وقت آگیا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس گھر کا سنگ ِبنیاد اس دعا کو پڑھ کر رکھا تھا:
﴿وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اجْعَلْ ھٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارْزُقْ اَھْلَہٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْھُمْ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ (البقرۃ:۱۲۶)
’’جب ابراہیم نے کہا کہ کہ خداوندا اس شہر کو امن کا شہر بنا اور اس کے باشندے اگر خدا اور روزِقیامت پر ایمان لائیں تو ان کو ہر قسم کے ثمرات و نعائم عطا فرما۔‘‘
جس وقت اُنہوں نے یہ دعا کی تھی، تمام دنیا فتنہ و فساد کا گہوارہ بن رہی تھی۔ دنیا کا امن و امان اُٹھ گیا تھا، اطمینان و سکون کی نیند آنکھوں سے اُڑ گئی تھی۔دنیا کی عزت و آبرو معرضِ خطر میں تھی۔جان و مال کا تحفظ ناممکن ہوگیا تھا، کمزور اور ضعیف لوگوں کے حقوق پامال کردیے گئے تھے، عدالت کا گھر ویران، حریت ِانسانیت مفقود اور نیکی کی مظلومیت انتہائی حد تک پہنچ چکی تھی۔کرۂ ارضی کا کوئی گوشہ ایسا نہ تھا جو ظلم و کفر کی تاریکی سے ظلمت کدہ نہ ہو۔ اس لئے
[1] ایضاً: ۳/۲۵۰
[2] بھجۃ المجالس وأنس المجالس: ۱/۲/۷۵۴