کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 55
’’(زمانۂ حج میں ) خدا کو اسی جوش و خروش سے یاد کرو جس طرح اپنے آباؤ اجداد کے کارناموں کا اعادہ کرتے تھے، بلکہ اس سے بھی زیادہ سرگرمی کے ساتھ۔‘‘
قریش کے تمام امتیازات مٹا دیے گئے، اور تمام عرب کے ساتھ ان کو بھی عرفہ کے ایک گوشہ میں کھڑا کردیاگیا :
﴿ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوْا ﷲَ اِنَّ ﷲَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾
’’اور جس جگہ سے تمام لوگ روانہ ہوں تم بھی وہیں سے روانہ ہوا کرو اور فخر و غرور کی جگہ خدا سے مغفرت مانگو کیونکہ خدا بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘ (البقرۃ:۱۹۹)
سب سے بد ترین رسم برہنہ طواف کرنے کی تھی، اور مردوں سے زیادہ حیاسوز منظربرہنہ عورتوں کے طواف کا ہوتا تھا، لیکن ایک سال پہلے ہی سے اس کی عام ممانعت کرا دی گئی:
ان أبا ھریرۃ أخبرہ أن أبا بکر الصدیق بعثہ في الحجۃ التي أمرہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قبل حجۃ الوداع یوم النحر في رھط یؤذن في الناس، ألا! لا یحج بعد العام مشرک ولا یطوف بالبیت عریان (صحیح بخاری :۱۶۲۲)
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ حجۃ الوداع سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک حج کا امیر بنایا اور اُنہوں نے مجھ کو ایک گروہ کے ساتھ روانہ کیا تاکہ یہ اعلان کردیا جائے کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک یا کوئی برہنہ شخص حج یا طواف نہ کرسکے گا۔‘‘
زمانۂ حج میں عمرہ کرنے والوں کو فاسق و فاجر کہا جاتا تھا لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں عمرہ ہی کا اِحرام باندھا اور صحابہ کو بھی عمرہ کرنے کا حکم دیا۔ پاپیادہ اور خاموش حج کرنے کی ممانعت کی گئی۔ قربانی کے جانوروں پر سوار ہونے کا حکم دیا گیا، ناک میں رسی ڈال کر طواف کرنے سے روکا گیا۔ گھر میں سامنے کے دروازے سے داخل ہونے کا حکم دیا :
﴿وَ لَیْسَ الْبِرُّ بِاَنْ تَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ ظُھُوْرِھَا وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنِ اتَّقٰی وَاْتُوا الْبُیُوْتَ مِنْ اَبْوَابِھَا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ﴾(البقرۃ:۱۸۹)
’’یہ کوئی نیکی کا کام نہیں ہے کہ گھروں میں پچھواڑے سے آؤ، نیکی تو صرف اس کی ہے جس نے پرہیزگاری اختیارکی۔ پس گھروں میں دروازے ہی کی راہ سے آؤ اور خدا سے ڈرو۔یقین ہے کہ تم کامیاب ہوگے۔‘‘
[1] التذکرۃ الحمدونیۃ ۳/۲۰۰۔۲۰۱
[2] ردّ المحتارعلی الدر المختار ۳/۲۴۴