کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 54
دخل النبي صلی اللہ علیہ وسلم مکۃ یوم الفتح وحول البیت ستون و ثلث مائۃ نصب فجعل یطعنھا بعود في یدہ ویقول﴿جَائَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ﴾
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے دن جب خانہ کعبہ میں داخل ہوئے تو اس کے گرد تین سو ساٹھ بت نظر آئے۔ آپ ان کو ایک لکڑی کے ذریعے ٹھکراتے جاتے تھے اور یہ آیت پڑھتے جاتے تھے ﴿جَآئَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ إنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوْقًا﴾(بنی اسرائیل:۸۱) یعنی حق اپنے مرکز پر آگیا اور باطل نے اس کے سامنے ٹھوکر کھائی۔باطل پامال ہونے ہی کے قابل تھا۔‘‘ (صحیح بخاری:۴۲۸۷،صحیح مسلم:۱۷۸۱)
فرضیت ِحج
اب میدان بالکل صاف تھا۔ راستے میں ایک کنکری بھی سنگ ِراہ نہیں ہوسکتی تھی۔ باپ نے گھر کو جس حال میں چھوڑا تھا، بیٹے نے اس گھر کو اسی حالت پر لوٹا دیا۔ تمام عرب نے فتح مکہ کو اسلام و کفر کا معیارِ صداقت قرار دیا۔ جب مکہ فتح ہوا تو لوگ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے۔ اب وقت آگیا تھا کہ دنیا کو اس جدید النشأۃ ’اُمت ِمسلمہ‘ کے قالب ِروحانی کا منظر عام طور پر دکھا دیا جاتا، اس لئے دوبارہ اسی دعوتِ عامہ کا اعادہ کیا گیا جس کے ذریعہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تمام عالم میں ایک غلغلہ عام ڈال دیا تھا مگر اس قوت کا فعل میں آناظہور نبی اُمی پر موقوف تھا :
﴿وَﷲِ عَلی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا﴾ (آلِ عمران:۹۷)
’’ جو لوگ مالی اور جسمانی حالت کے لحاظ سے حج کی استطاعت رکھتے ہیں ان پر اب حج فرض کردیا گیا۔‘‘
تکمیل حج
اس صدا پر تمام عرب نے لبیک کہااور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ۱۳،۱۴ ہزار آدمی جمع ہوگئے۔ عرب نے ارکانِ حج میں بدعات و اختراعات کا جو زنگ لگا دیاتھا، وہ ایک ایک کرکے چھڑا دیاگیا۔ آبائو اجداد کے کارناموں کے بجاے اللہ کی توحید کا غلغلہ بلند کیاگیا:
﴿فَاذْکُرُوْا ﷲَ کَذِکْرِ کُمْ آبَائَ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا﴾ (البقرۃ:۲۰۰)
[1] قالوا عن الإسلام:۲۸۸
[2] مسند الإمام أحمد:۴/۸۹
[3] مصنف عبدالرزاق ۶/۹۱،أحکام القرآن از ابن العربی ۱/۲۷۷