کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 53
عہد لیا تھا، اس کی پہلی شرط یہی تھی: ﴿أنْ لَا تُشْرِکْ بِیْ شَیْئًا﴾ پھر اس نے صف ِنماز قائم کی کہ یہ گھر صرف اللہ ہی کے آگے سرجھکانے والوں کے لئے بنایا گیا تھا:
﴿وَّ طَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْقَآئِمِیْنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوْدِ ﴾ (الحج:۲۶)
اس نے روزے کی تعلیم دی کہ وہ شرائط ِحج کا جامع ومکمل تھا:
﴿فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ﴾
’’جس شخص نے ان مہینوں میں حج کاارادہ کرلیا تو اس کو ہر قسم کی نفس پرستی، بدکاری اور جھگڑے تکرار سے اجتناب کرنا لازمی ہے‘‘ اور روزہ کی حقیقت یہی ہے کہ وہ انسان کو غیبت، بہتان، فسق و فجور، مخاصمت و تنازعت، اور نفس پرستی سے روکتا ہے ۔‘‘ (البقرۃ:۱۹۷ )
جیسا کہ احکامِ صیام میں فرمایا:
﴿ثُمَّ اَتِمُّوْا الصِّیَامَ اِ%َ اللَّیْلِ وَلَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَاَنْتُمْ عَاکِفُوْنَ فِیْ الْمَسَاجِدِ﴾
’’پھر رات تک روزہ پورا کرو، اور روزہ کی حالت میں عورتوں کے نزدیک نہ جاؤ اور اگر مساجد میں اعتکاف کرو تو شب کو بھی ان سے الگ رہو۔‘‘(البقرۃ: ۱۸۷)
اس نے زکوٰۃ بھی فرض کردی کہ وہ بھی حج کاایک اہم مقصد تھا:
﴿فَکُلُوْا مِنْھَا وَاَطْعِمُوْا الْبَائِسَ الْفَقِیْرَ﴾ (الحج:۲۸)
’’ قربانی کا گوشت خود کھاؤ اور فقیروں اور محتاجوں کو بھی کھلاؤ۔‘‘
فتح مکہ
اس طرح جب اس ’اُمت ِمسلمہ‘ کا روحانی خاکہ تیار ہوگیا تو اس نے اپنی طرح ان کو بھی منظر عام پرنمایاں کرنا چاہا۔ اس غرض سے اس نے عمرہ کی تیاری کی اور ۱۴، ۱۵ سو کی جمعیت کے ساتھ روانہ ہوا کہ پہلی بار اپنے آبائی گھر کو حسرت آلود نگاہوں سے دیکھ کر چلے آئیں ۔ لیکن یہ کاروانِ ہدایت راستے ہی میں بہ مقامِ حدیبیہ روک دیا گیا۔ دوسرے سال حسب ِشرائط صلح زیارتِ کعبہ کی اجازت ملی اور آپ مکہ میں قیام کرکے چلے آئے۔ اب اس مصالحت نے راستے کے تمام نشیب و فراز ہموار کردیے تھے، صرف خانہ کعبہ میں پتھروں کا ایک ڈھیر رہ گیاتھا، اسے بھی فتح مکہ نے ہموار کردیا :