کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 52
اُمت ِمسلمہ اللہ نے حضر ت ابراہیم علیہ السلام کو جن’کلمات‘ کے ذریعے آزمایا اور جن کی بنا پر اُنہیں دنیا کی امامت عطا ہوئی، وہ اسلام کے اجزاے اوّلین یعنی توحید ِالٰہی، قربانی نفس و جذبات، صلوٰۃِ الٰہی کا قیام، اور معرفت ِدین فطری کے امتحانات تھے۔ اگرچہ ان کی اولاد میں سے چند ناخلف لوگوں نے ان ارکان کو چھوڑ کر اپنے اوپر ظلم کیا اور اس موروثی عہدسے محروم ہوگئے: ﴿لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ﴾ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات کے اندر ایک دوسری اُمت بھی چھپی ہوئی تھی جس کے لئے خود انہوں نے اللہ سے دعا کی تھی: ﴿اِنَّ اِبْرٰھِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلّٰہِ حَنِیْفًا وَ لَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ ﴾(النحل:۱۲۰) حضرت ابراہیم گو بظاہر ایک فردِ واحد تھے مگر ان کی فعالیت ِروحانیہ و الٰہیہ کے اندر ایک پوری قومِ قانت و مسلم پوشیدہ تھی۔ اجزاے حج اب اس ’امت ِمسلمہ‘ کے ظہور کا وقت آگیا اور وہ رسول مزکی و موعودہ غارِ حرا کے تاریک گوشوں سے نکل کر منظر عام پر نمودار ہوا تاکہ اس نے خود اس اندھیرے میں جو روشنی دیکھی ہے، وہ روشنی تمام دنیا کوبھی دکھلا دے : ﴿یُخْرِجُہُمْ مِنَ الظُّلُمٰتِ اِلَّی النُّوْرِ﴾ (البقرۃ:۲۵۷) ’’وہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ان کو اندھیرے سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے۔‘‘ ﴿قَدْ جَائَ کُمْ مِنَ ﷲِ نَوْرٌ وَّ کِتَابٌ مُّبِیْنٌ﴾ (المائدۃ:۱۵) ’’بیشک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نورِ ہدایت اور ایک کھلی کھلی ہدایتیں دینے والی کتاب آئی۔‘‘ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم منظر عام پر آیا تو سب سے پہلے اپنے باپ کے موروثی گھر کو ظالموں کے ہاتھ سے واپس لینا چاہا، لیکن اس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام ہی کی طرح بتدریج چند روحانی مراحل سے گزرنا ضرور تھا۔ چنانچہ اس نے ان مرحلوں سے بتدریج گزرنا شروع کیا۔ اس نے غارِ حرا سے نکلنے کے ساتھ ہی توحید کا غلغلہ بلندکیا کہ خدا نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے جو
[1] أخبار القضاۃ: ۱/۱۳۹