کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 51
گم شدہ کی تجدید و احیا میں مصروف ہوگیا جس کا قالب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مبارک ہاتھوں نے تیار کیاتھا۔ اسلام کامجموعہ عقائد و عبادات صرف توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج سے مرکب ہے لیکن ان تمام ارکان میں حج ہی ایک ایسا رکن ہے جس سے اس تمام مجموعہ کی ہیئت ِترکیبی مکمل ہوتی ہے، اور یہ تمام ارکان اس کے اندر جمع ہوگئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کو صرف خانۂ کعبہ ہی کے ساتھ معلق کردیا :
﴿ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ ھٰذِہِ الْبَلْدَۃِ الَّذِیْ حَرَّمَھَا وَ لَہٗ کُلُّ شَیْئٍ وَّ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ﴾(قصص: ۹۱)
’’مجھ کو صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے ربّ کی عبادت کروں جس نے اس کو عزت دی۔ سب کچھ اسی ربّ کا ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کا فرمان بردار مسلم ہوں ۔‘‘
اور یہی وجہ ہے کہ قرآن نے ہر موقع پر حج کے ساتھ اسلام کا ذکر بطورِ لازم و ملزوم کے کیا:
﴿ وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ ﷲِ عَلیٰ مَا رَزَقَھُمْ مِّنْ بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ فَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَلَہُ اَسْلِمُوْا وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ﴾ (حج:۳۴)
’’اور ہر ایک اُمت کے لئے ہم نے قربانی قرار دی تھی تاکہ خدا نے ان کو جو چارپاے بخشے ہیں ، ان کی قربانی کے وقت خدا کا نام لیں پس تم سب کا خدا ایک ہی ہے۔ اسی کے تم سب فرمانبردار بن جاؤ اور خدا کے خاکسار بندوں کو حج کے ذریعہ دین حق کی بشارت دو۔‘‘
’اسلام‘ اللہ کا ایک فطری معاہدہ تھا جس کو انسان کی ظالمانہ عہد شکنی نے بالکل چاک چاک کردیا تھا، اس لئے اللہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ناخلف اولاد کو روزِ اوّل ہی اس کے ثمرات سے محروم کردیا:
﴿وَ اِذِ ابْتَلٰٓی اِبْرٰھٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّھُنَّ قَالَ اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًاقَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ قَالَ لَا یَنَالُ عَھْدِی الظّٰلِمِیْنَ﴾(البقرۃ:۱۲۴)
’’جب خدا نے چند احکام کے ذریعے ابراہیم کو آزمایا اور وہ خدا کے امتحان میں پورے اُترے، تو خدا نے کہاکہ اب میں تمہیں دنیا کی امامت اور خلافت عطا کرتا ہوں اس پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا: اور میری اولاد کو بھی؟ ارشاد ہوا کہ ہاں ، مگر اس قول و قرار میں ظالم لوگ داخل نہیں ہوسکتے۔‘‘
[1] سنن الدار قطني: ۳/۱۳۵، رقم : ۱۶۷
[2] اسلامی حکومت میں اہل ذمہ کے حقوق ، از مودرحمۃ اللہ علیہ : ۱۸
[3] السنن الکبریٰ:۸/۳۴، سنن الدارقطني: ۲/۳۵۰
نیز دیکھئے:غیر المسلمین في المجتمع الإسلامي:۱۳