کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 50
اب صرف آباؤ اجداد کے کارنامہ ہاے فخر وغرور کے ترانے گائے جاتے تھے۔
3. حج کا ایک مقصد تمام انسانوں میں مساوات قائم کرنا تھا، اس لیے تمام عرب بلکہ تمام دنیا کو اس کی دعوتِ عام دی گئی اور سب کو وضع ولباس میں متحد کر دیا گیا،لیکن قریش کے غرور وفضیلت نے اپنے لیے بعض خاص امتیازات قائم کر لیے تھے جو اُصولِ مساوات کے بالکل منافی تھے۔ مثلاً تمام عرب عرفات کے میدان میں قیام کرتا تھا لیکن قریش مزدلفہ سے باہر نہیں نکلتے تھے اور کہتے تھے ہم کہ متولیانِ حرم حرم کے باہر نہیں جا سکتے۔ جس طرح آج کل کے امراے فسق ووالیانِ ریاست عام مسلمانوں کے ساتھ مسجد میں آ کر بیٹھنے اور دوش بدوش کھڑے ہونے میں اپنی توہین سمجھتے ہیں ۔
4. قریش کے سوا عرب کے تمام مرد وزَن برہنہ طواف کرتے تھے۔ستر عورۃ(شرمگاہ) کے ساتھ صرف وہی لوگ طواف کر سکتے تھے جن کو قریش کی طرف سے کپڑا ملتا تھا اور قریش نے اس کو بھی اپنی اظہارِ سیادت کا ایک ذریعہ بنا لیا تھا۔
5. عمرہ گویا حج کا ایک مقدمہ یا جز تھا،لیکن اہل عرب ایامِ حج میں عمرہ کو سخت گناہ سمجھتے تھے اور کہتے تھے کہ ’’جب حاجیوں کی سواریوں کی پشت کے زخم اچھے ہوجائیں اور صفر کا مہینہ گزر جائے، تب عمرہ جائز ہو سکتا ہے۔‘‘
6. حج کے تمام اجزا وارکان میں یہودیانہ رہبانیت کا عالمگیر مرض ساری ہو گیا تھا۔اپنے گھر سے پا پیادہ حج کرنے کی منت ماننا، جب تک حج ادا نہ ہو جائے خاموش رہنا، قربانی کے اونٹوں پر کسی حالت میں سوار نہ ہونا، ناک میں نکیل ڈال کر جانوروں کی طرح خانہ کعبہ کا طواف کرنا، زمانۂ حج میں گھر کے اندر دروازے کی راہ سے نہ گھسنا بلکہ پچھواڑے کی طرف سے دیوار پھاند کے آنا، در ودیوار پر قربانی کے جانوروں کے خون کا چھاپہ لگانا،عرب کا عام شعار ہوگیا تھا۔
ظہورِ اسلام وتزکیۂ حج
اسلام در حقیقت دین ابراہیمی کی حقیقت کی تکمیل تھی، اس لئے وہ ابتدا ہی سے اس حقیقت
[1] صحیح البخاري:۱۷۳۹
[2] ایضاً: ۸/۴۸