کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 49
کتاب: محدث شمارہ 306
مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی
پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور
ترجمہ:
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
فکر ونظر
حج بیت اللہ الحرام : حضرت ابراہیم علیہ السلام سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک!
اہل عرب نے اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مجموعہ تعلیم ہدایت کو بالکل بھلا دیا تھا، لیکن اُنہوں نے خانہ کعبہ کے کنگرے پر چڑھ کر تمام دنیا کو جو دعوتِ عام دی تھی، اس کی صداے بازگشت اب تک عرب کے در ودیوار سے آ رہی تھی :
﴿وَ اِذْ بَوَّ اْنَا لِاِبْرٰھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْئًا وَّ طَھِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْقَآئِمِیْنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوْدِ٭ وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّ علٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ﴾ (الحج:۲۶،۲۷)
’’اور جب ہم نے حضرت ابراہیم کے لیے ایک معبد قرار دیا اور حکم دیا کہ ہماری قدوسیت وجبروت میں اور کسی چیز کو شریک نہ ٹھہرانا اور اس گھر کو طواف کرنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کے لیے ہمیشہ پاک ومقدس رکھنا۔ نیز ہم نے حکم دیا کہ دنیا میں حج کی پکار بلند کر دو۔لوگ تمہاری طرف دوڑتے ہوئے چلے آئیں گے۔ ان میں پیادہ پا بھی ہوں گے اور وہ بھی جنہوں نے مختلف قسم کی سواریوں پر دور دراز مقامات سے قطع مسافت کی ہوگی۔‘‘
بدعات ومحدثاتِ جاہلیہ
لیکن سچ کے ساتھ جب جھوٹ مل جاتا ہے تو وہ اور بھی خطرناک ہو جاتا ہے۔ اہل عرب نے اگرچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت ِقدیمہ کو اب تک زندہ رکھا تھا، لیکن بدعات واختراعات کی آمیزش نے اصل حقیقت کو بالکل کم کر دیا تھا۔
1. خدانے اپنے گھر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قیام کی اجازت صرف اس شرط پر دی تھی کہ﴿أنْ لَا تُشْرِکْ بِیْ شَیْئًا﴾ ’’ کسی کو خدا کا شریک نہ بنانا‘‘ لیکن اب خدا کا یہ گھر تین سو ساٹھ بتوں کا مرکز بن گیا تھا اور ان کا طواف کیا جاتا تھا۔
2. خدا نے حج کا مقصد یہ قرار دیا تھا کہ دنیوی فوائد کے ساتھ خدا کا ذکر قائم کیا جائے،لیکن