کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 127
عورت ہوگی جو نئے مستقبل کی معمار ثابت ہوگی اور ایسی نئی نسل وجود میں لائے گی جس کا نعرہ ﷲ أکبر اور العزۃ للإسلام ہوگا اور اس کا کہنا ہوگا کہ شکر اﷲ کا، اسکے اس انعام پر کہ اس نے ہمیں صلاح و فلاح کی توفیق عطا فرمائی تاکہ اس کا کلمہ بلند ہو اور کافر ذلیل و خوار ہوں ۔
اس طرح ہر چیز اپنے اصل مقام پر آجائے گی اور عورت اپنے اصل مشن یعنی اپنی بزرگ اور محترم ماؤں حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ، حضرت نسیبہ رضی اللہ عنہا اور حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا بنت ِرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت اسما بنت ِابوبکر رضی اللہ عنہا کے سیرت و کردار کی طرف واپس لوٹ آئے گی۔ اس طرح حق کو باطل پر غلبہ حاصل ہوگا، ان جانوں کی برکت سے جو قربان کی جائیں گی اور اس مال کے نتیجے میں جو خرچ کیا جائے گا اور وحدت ِاُمت کے طفیل فرقہ بندی اور افتراق و تشتت ختم ہوجائے گا۔
بے شک عورت کو جو مہم درپیش ہے، وہ انتہائی مشکل اور نازک ہے اور وہ ہے ایسے عمل کا بیڑا اُٹھانا جس کے نتیجے میں سب مسلمان فرقہ بازی چھوڑ کر ایک شجرہ مبارکہ کے گرد جمع ہوجائیں جس کی جڑیں نہایت مضبوط ہوں اور شاخین آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں اور جو اپنے ربّ کے اذن سے ہر آن اپنی پیداوار دیتا ہے۔
یہ درخت دراصل لا الـٰہ إلا ﷲ ہی ہے جس کے حقیقی مفہوم کو صحیح طریقے پر سمجھنے پر ہی اُمت ِمسلمہ کا اتحاد قرآن و سنت کی بنیاد پر ہوسکتا ہے۔ وہ ایک ایسی جماعت بن سکتی ہے جس کا ایک ہی عقیدہ ہو اور جسے وہ فہم حاصل ہو جو قرآن کے سرچشمہ سے خود کو سیراب کرے اور سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے روشنی حاصل کرے اور خلافت ِاسلامیہ دوبارہ قائم ہو جو پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک اُمت بنا دے، سب کی ایک ہی فوج ہو اور ایک ہی حکومت ہو اور سب ایک ہوں ۔
آج پندرہویں صدی ہجری کے دور میں ایک مسلمان عورت ہی اپنے بیٹوں کو اُمت ِمسلمہ کی تاریخ پڑھا سکتی ہے اور اس طرح ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کی تلافی ممکن ہے، اس طرح عورت اپنا وہ حق ادا کرسکتی ہے جو اس پر واجب ہے۔ کیونکہ … عورت ہی تو معاشرے کی ماں اور سردار ہے۔ جب ایسا ہوجائے گا تب ہم کہہ سکیں گے کہ مسلمان عورت نے اپنا مشن بہترین طریقہ پر اور کامیابی کے ساتھ پورا کردیا اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ تعمیر کردیا جو قرآن و سنت کے مطابق ہے اور واقعی مسلمان عورت عظیم ہے۔