کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 126
’’تو ہی، اے میری پیاری ! تو ہی، جو کہ عورت ہے، اس ساری خرابی کا باعث ہے۔ تو نے اپنی اولاد کواس حال میں رہنے دیا کہ ان کے کان حق سننے کے لئے بہرے اور آنکھیں حقائق کو دیکھنے کے لئے اندھی رہیں ۔ تو نے اُنہیں اجازت دی کہ وہ ان زہریلی لہروں کے غلام بن کر رہیں جو میڈیا کے ذریعے سے ان تک ہمارے ہی لوگوں کے ہاتھوں پہنچ رہی ہیں لیکن ظالم اور قاتل دشمنوں نے ان کو زہر میں بجھا کرمہلک بنا دیا ہے۔
تو اے میری پیاری، تو جو عورت ہے، تو اس ساری خرابی کی ذمہ دار ہے کیونکہ تو اپنے دین توحید کے فضائل و برکات سے محروم ہے کیونکہ اس وقت یہ دین دشمنوں کی کوششوں کے نتیجے میں فضول اور لچر خرافات سے ملوث ہوچکا ہے اور یہی وہ تعلیم ہے جو سیکولر سکولوں میں تیرے بیٹے حاصل کررہے ہیں ۔ یہ بچے جو نئی نئی اصطلاحات مثلاً قومیت اور قومی بیداری و ترقی وغیرہ پڑھتے ہیں ، یہ سب زہریلے نام ہیں اور جھوٹی اور فرضی چیزوں کے لئے گھڑے گئے ہیں جو شیطان نے بنا سنوار کر ان کی درسی کتابوں میں لکھ دیے ہیں ۔
یہ سب امریکی یہودیوں کے افکار ہیں جن کے ذریعے سے بیسویں صدی کی جاہلیت نے ہم پر یلغار کی ہے تاکہ ہم اس کی قیمت کے طور پر پہلے فلسطین ان کے سپرد کردیں پھر ایک ایک کرکے اپنے تمام گھر بھی ان کے حوالے کردیں ۔‘‘
دراصل یہی قیمت ہے عورت کی مفروضہ ترقی کے نام پر نئی نسلوں کے ضائع ہوجانے کی اور درحقیقت یہی حقیقی پسماندگی بلکہ دورِ جاہلیت کی طرف واپسی ہے۔ اس نام نہاد ترقی کے نام پر کئی نسلیں تباہ و برباد ہوچکی ہیں ۔ اگر ہم اب بھی ہوش میں نہ آئے اور عورت کو اس کی مملکت میں بطورِ سردار و ملکہ کے واپس نہ لائے تاکہ وہ از سر نو ایک نیا معاشرہ قائم /تعمیر کرے اور اپنی موجودہ حالت کو دیکھے اور سمجھے، تو پھر ہمیں ایک بڑی قیامت اور تباہی کے لئے تیار رہنا چاہئے۔
کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ عورت اپنے حقیقی مشن کو سمجھے اور اپنی ذات میں رہ کر اپنے معاشرے کی اصلاح اور بہتری کی ہوش مند نگران ثابت ہو، تاکہ مردوں کو تعمیر معاشرہ کے لئے تیار کرے، ایسے مردانِ کار جو مستقبل کے معمار ثابت ہوں ، اسلام کے شجرۂ مبارکہ کی نئی پود ہوں جس کی جڑیں انتہائی مضبوط اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہوں جو اپنے ربّ کے اِذن سے اپنی پیداوار ہر وقت اور ہر آن دیتے رہیں ۔
یہ ہوگی وہ مسلمان عورت جو کتاب اللہ اور سنت ِرسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہوگی اور یہی وہ