کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 125
عورت اگر اپنے فطری میدان کی طرف لوٹ آئے اور مرد اپنے وہ فرائض ادا کرے جو اس کی فطری ذمہ داری ہیں ، تو ہم دیکھیں گے کہ عورت نے اپنے عمل صالح کے نتیجے میں پاکیزہ معاشرہ کاایک عظیم الشان محل تعمیر کردیاہے اور اپنے فکر و ضمیر سے اس کی روز افزوں ترقی میں کوشاں ہے تاکہ معاشرے کو ایک ایسی پختہ مزاج نسل عطاکرے جو اس کا نام بلند کرے، اس کی مامتا کا احترام کرے اور اس کی خدمت کی صحیح قدر کرے جو اس نے معاشرے کے لئے کی ہے۔اس سے ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے گا جس میں خیرخواہی ہو، فکر سلیم ہو، درست رہنمائی ہو اور بالآخر ایک ایسی حکومت کا قیام عمل میں آجائے جو قرآنی نظام حکومت چلائے اورخلافت ِراشدہ کے طریقے پر چلے اور مسلمان ملکوں اور قومیتوں کے درمیان اس طرح اتحاد و اتفاق پیداکرے کہ ان کے عوام، ان کے عقائد، ان کی سیاست و معیشت اور حربی حکمت ِعملی الغرض سب چیزیں باہم مربوط ہوجائیں ۔
و ہ صالح مائیں جو اپنے بچوں کی پرورش اور تربیت کے لئے (جو قوم کی تعمیر میں خشت اوّل کی حیثیت رکھتے ہیں ) بیداررہتی ہیں ۔ وہی دراصل قوم کی معمار ہیں جو اس کی ساخت پرداخت کے لئے ایسی سرسبز فصلیں اُگا کر دیتی ہیں جو اپنے ربّ کے اِذن سے ہر وقت اپنی پیداوار دیتی رہتی ہیں ۔
الغرض اُمت ِمسلمہ عورت کے ہاتھ میں امانت ہے، جس کا دین اور اس کی ذمہ داریاں ہر وقت اس سے یہ سوال کرتی ہیں کہ آخر کیوں ہم پیچھے رہ گئے اور اَغیار آگے بڑھ گئے؟ ہم دوسروں کے محکوم کیوں ہیں ؟ یہ اسرائیل آئے دن ہم پر کیوں حملے کرتارہتا ہے؟ یہ روس وامریکہ نے کیوں افغانستان میں ہمارے دینی شعائر کے احترام کو پامال کیاہے؟ یہ امریکہ جس کی عمر ابھی محض دو سو سال ہے، آخر کیوں ہم پر اپنی دھونس اور دھاندلی مسلط کرتا رہتا ہے۔آخر ایسا کیوں ہے؟ جبکہ ہم ایک ایسی قوم کے افراد ہیں جس کو وجود میں آئے پندرہ صدیاں گزر چکی ہیں ۔
پھر کسی پُرسکون لمحہ میں وہ ان سب سوالوں کا جواب پالیتی ہے … یا غیبی آواز یہ جواب اس کے کان میں ڈالتی ہے … اور یہ جواب نہایت سخت ہے۔ کیا آپ جانتے ہیں وہ جواب کیا ہے؟ سنئے ، وہ جواب یہ ہے: