کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 123
قوموں کی بدبختی اس طرح آتی ہے کہ اس میں فضل و شرف کا احترام ختم ہوجاتا ہے اوراس کے عوام کا ایک طبقہ جنسی شہوات کا غلام بن کر رہ جاتا ہے۔ یہ اس بات کی پہلی نشانی ہے کہ معاشرے میں عورت اور اس کا مقام و مرتبہ ضائع ہوچکا۔ ان حالات میں عورت کو چاہئے کہ صاف کہہ دے کہ تباہ و برباد ہوں وہ لوگ جن پر ان کی خواہشاتِ نفسانی کی حکمرانی ہو۔ میں ایسے معاشرے کو چھوڑ کر اپنے ربّ کی بتائی ہوئی شاہراہ پر جارہی ہوں تاکہ از سر نو ایک نئی قوم کی تشکیل و تعمیر کروں ۔
آپ جب اسلامی معاشرے میں ’عورت کا اہم ترین مسئلہ‘ کے موضوع پر تحقیق کریں گے تو آپ کومعلوم ہوگاکہ یہ بات کس قدر سچ ہے کہ اس وقت عورت کا اہم ترین مسئلہ یہی ہے کہ عورت خاندانی زندگی میں ایک ملکہ اور ماں کی حیثیت سے زندگی کے سفر میں اپنی اولاد کی رہنمائی کرے اور اس کی نگرانی اور تربیت کے لئے راتوں کو جاگ جاگ کر ایک ایسی مضبوط نسل وجود میں لائے جس کو زندگی میں اپنی ذمہ داریوں کا پورا پورا احساس ہو۔ یہ ماں ان سے اور وہ اپنی ماں سے زندگی کے مقاصد کے بارے میں دریافت کریں اور یہ عورت ماں کی حیثیت میں ان کو بتائے کہ
’’میرا مشن یہ ہے کہ میں تمہیں ایک ایسی قوم کے زخموں کی کہانی سنانے کے لئے زندہ رہوں جو اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے عادلانہ قوانین کے مطابق اس دنیا پر حکومت کررہی تھی، پھر وہ شریعت اور صحیح طریقے سے ہٹ گئی اور اس کے یہ اور یہ نتائج برآمد ہوئے۔
اور اے میرے پیارے بیٹے! تیرا مشن یہ ہے کہ تو میری ان باتوں کو جو میں تجھے اس قوم کی شان و شوکت اور عدل و انصاف کے بارے میں سناؤں ، ان کو خوب ذہن نشین کرے۔ میں تجھے اس اُمت کے پہلے مردانِ کار کے بارے میں بتاؤں گی کہ وہ کیسے تھے اور اُنہوں نے کیسی شاندار زندگی گزاری۔ میں یہ جو کچھ تجھ کو سناؤں تو اسے پوری توجہ سے سن اور اپنے ذہن میں محفوظ کرلے۔
میں تجھے تیرے رسول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بتاؤں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کے قصے سناؤں گی۔ ان بڑی شخصیتوں کے حالات سناؤں گی جنہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زمامِ کار سنبھالی اور دنیا پر اس انداز سے حکمرانی کی کہ ہر طرف عدل و انصاف کا دور دورہ