کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 122
ہوتے ہیں ۔‘‘ یہ حقیقت ہے کہ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ارشاد کو ایک اہم اور مقصود بالذات حقیقت کی حیثیت سے اپنے پلے باندھ لیتے تو ہم کو معلوم ہوجاتا کہ فی الواقع عورت کی ذمہ داری مردوں کی تعمیر ہے، اور مرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عورت کے لئے، اس کے بال بچوں کے لئے بلکہ پورے خاندان کے لئے ہر قسم کا سامانِ زیست اور لوازماتِ زندگی مہیا کرے تاکہ عورت کو اتنی فرصت مل سکے کہ وہ ایک ایسی نسل تعمیر کرسکے جو دوبارہ ہمیں پوری دنیا کی سیادت و قیادت واپس دلا سکے اور پھر ہم دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکام نافذ کریں اور کاروبارِ جہاں بعینہٖ اس طرح چلائیں جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ چاہتا ہے۔ پاک ہے وہ ذات جس نے ارشاد فرمایا: ﴿ وَﷲِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِہِ وَلِلْمُؤمِنِیْنَ ﴾ ( المنافقون:۸) ’’حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور مؤمنین کے لئے ہے۔ ‘‘ لیکن آج وہ عزت کہاں ہے؟ کیا اس دنیا پر آج حق کی فرمانروائی ہے؟ حق کو بالادستی حاصل ہو اور اس کی یہ شکل و صورت ہو؟ بے شک آج دنیا سے حق کے ناپید ہونے کی ذمہ داری مسلمان عورت پر ہے لیکن آج ہم نے معاشرے میں عورت کے فرائض کے بارے میں سوال اُٹھایا ہے تو کیا ہم نے وہ تمام ذمہ داریاں پوری کردی ہیں جو ہم پر عائد ہوتی ہیں ؟ میں اس کا صحیح جواب دیتی ہوں اور وہ یہ ہے کہ عورت کا اس کی مملکت یعنی خاندانی زندگی میں واپس لوٹنا۔ یہی مقام اس کی عزت ، وقار اور اِکرام و احترام کا وہ تخت ہے جس پر بیٹھ کر وہ اس طرح زندگی گزارے گی کہ افرادِ معاشرہ کی تعمیر و تربیت کرے، اُنہیں ان کی ذمہ داری سے آگاہ کرے اور ان سے پوچھے کہ کیا تم اس کے لئے تیار ہو کہ ایک اور نسل تباہ و برباد ہوجائے یا تم وہ زندگی اختیار کرنا چاہتے ہو جو اللہ تعالیٰ کے قانون کے ساتھ مضبوطی سے بندھی ہوئی ہے؟ اگر اس سوال کے جواب میں مرد اصرار کرے کہ میں تووہی زندگی اختیار کروں گا جس کا نتیجہ ہلاکت ہے تو اس صورت میں عورت پر یہ فرض عائد ہوجائے گا کہ وہ ایسے مرد سے کنارہ کش ہوجائے اور صاف لفظوں میں اسے بتا دے کہ آج کے بعد میں نئی نسل کو تباہ کرنے میں تمہارا ساتھ نہیں دوں گی۔