کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 121
بارے میں ہیں ۔ یہ کیاہورہا ہے کہ اس دور کی جاہلیت فریب اور جھوٹ سے اور اپنے شورو غوغا سے ہمارے کانوں کو بہرہ کئے دے رہی ہے اور طرح طرح کے مصنوعی اور پُرفریب نعروں مثلاً ’عورت کے ساتھ انصاف‘ یا ’عورت کی بیداری‘ وغیرہ قسم کے جھوٹے نام رکھ کر دھوکہ دے رہی ہے۔ اس کے باوجود آپ پوچھتے ہیں کہ معاشرے میں عورت کا رول کیاہے؟ محترم گرامی منزلت! کیا آپ چاہتے ہیں کہ لگی لپٹی رکھے بغیر آپ کو صاف لفظوں میں سچائی اور حقیقت بتادوں تو سنئے، وہ سچائی یہ ہے کہ ’’عورت کو اس کی اپنی مملکت میں واپس بھیج دو، وہی اس کے لئے باعث ِعزت واحترام ہے تاکہ عورت اپنا وہ رول ادا کرسکے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کیاہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورت کو ’ماں ‘ پیدا فرمایا ہے اور دوسری حیثیت اس کی یہ ہے کہ وہ ’بیوی ‘ہے۔ اپنی ان حیثیتوں میں وہ بڑی تمکنت اور وقار کے ساتھ اپنی عزت و سیادت کے حقیقی تخت پر جلوہ افروز ہے۔ آپ جانتی ہیں لفظ ’ماں ‘ کے معنی کیا ہیں ؟ اس کے معنی ہیں : مرد اورعورت دونوں کی سردار اور اللہ تعالیٰ کے بعد ان کا ملجا و ماویٰ۔ عورت کے ماں ہونے کے معانی یہ ہیں کہ عورت ہی زندگی کو بنانے والی اور انسان کو سکون و طمانیت عطا فرمانے والی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ وہ زندگی جس میں ماں کا تصور باقی نہ رہے، بدبختی کی ایک شکل ہے کیونکہ جسے درست رہنمائی نہ ملے، دوزخ بن کر رہ جاتی ہے اور زندگی میں گمراہی کے اس جنم سے نجات دلانے والی صرف ’نیک ماں ‘ ہے۔ اب میں مردوں سے مخاطب ہوکر پوچھتی ہوں کہ حضرات محترم! کیا ان حقائق کو جان لینے کے بعد بھی آپ مجھ سے دریافت کریں گے کہ معاشرے میں عورت کا حقیقی مشن کیاہے؟ سنئے! عورت کا مشن ایک نہایت نازک ذمہ داری ہے۔اے کاش! اگر ہم اس کی نزاکت کو جان جاتے تو اسرائیل کبھی ہماری سرزمین کے ایک حصہ کو غلام نہ بنا سکتا اور ہم خود وہاں حکومت کررہے ہوتے جیسا کہ ہماری حکومت اس پر اس وقت سے تھی جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایاتھا: ((إنما النساء شقائق الرجال)) (سنن ابو داود:۲۰۴’صحیح‘) ’’عورتیں اسی طرح مردوں کے برابر اور ہم پایہ ہیں جیسے دو سگے بھائی ایک دوسرے کے برابر