کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 120
نرم دلی عطا فرمائی اور اسے وفورِ جذبات سے نوازا جو بیشتر حالات میں قواے عقلیہ پر غالب رہتے ہیں ، اس لئے کہ اس کی مامتا کا تقاضا یہی تھا۔ اسی طرح عورت جو ازدواجی زندگی مرد کے ساتھ گزارتی ہے، اس کے رکھ رکھاؤ کے سلسلہ میں اگر نزاکت ِجذبات کی کارفرمائی نہ ہوگی اور اس رہن سہن میں عورت اگر قلبی طور پر ہر وقت بیدار اور ہوشیار نہ رہے گی اور خاوند کی خوشی کی مسکراہٹوں اور ناخوشی کی نظروں کو پہچاننے کے سلسلہ میں شدید الاحساس نہ ہوگی تو بہت ممکن ہے کہ مختلف قسم کے ذاتی اور نفسیاتی جھگڑے پیدا ہو کراس کی اَزدواجی زندگی کومکدر کردیں کیونکہ یہ بندھن بہت ہی حساس اور نازک ہے۔ ظاہر ہے کہ ان حالات میں عورت کے سر پر اس کی حقیقی اور اصلی ذمہ داریوں کی موجودگی میں مزید ذمہ داریوں کا بوجھ کس طرح ڈالاجاسکتاہے اور عورت کے لئے ایسی کیا مجبوری ہے کہ وہ گھر سے باہر جاکر بھی کام کرے اور گھر کے اندر بھی کام کرے جبکہ مرد محض اپنی فطری ذمہ داری کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے کام کررہا ہے۔ مجھے یہ کہتے ہوئے انتہائی دُکھ ہوتا ہے کہ وہ عورت جس نے گھر سے باہر جاکر کام کرنے کا بوجھ اُٹھانا قبول کرلیا ہے، وہ دراصل ہم عورتوں کے لئے دوبارہ غلامانہ زندگی کا دور واپس لانے کی کوشش کررہی ہے اورعورت ذات پرایسا بوجھ لادنا چاہتی ہے جو اس کی طاقت سے زیادہ ہے۔مجھے یہ کہتے ہوئے بھی سخت تکلیف محسوس ہورہی ہے کہ قرونِ مظلمہ میں بھی جب عورت واقعتاً غلام تھی تو اس پر ایسا دوہرا بوجھ نہیں لادا جاتا تھا جیسا کہ آج عورت کے ساتھ ہورہا ہے۔ یہ عورت جو خود کو اس مغالطہ میں مبتلا کئے ہوئے ہے کہ وہ اب تک مرد کی غلام ہے اور آزادی یہ ہے کہ وہ تہذیب ِمغرب کے رنگ میں رنگی جائے اور ہر معاملہ میں مرد کے مساوی ہوجائے۔ آخر یہ مرد سے مساوات ہے کیا؟ مرد تو اپنے مزاج کے مطابق اپنی فطری ذمہ داریوں کے دائرے میں محدود ہے۔ پھر عورت کو کیا ہوا ہے کہ وہ اپنی فطرت اور طاقت سے بڑھ کر بوجھ اُٹھائے۔ یہ بیسویں صدی کی جاہلیت مرد و عورت دونوں کے ساتھ کیاکررہی ہے! یہ جاہلیت ان پر ایسے فیصلے مسلط کررہی ہے جس کانتیجہ انسانی وجود کی شکست و ریخت کے سوا کچھ نہیں ، بالخصوص وہ فیصلے جو عورت کی قدروقیمت، اس کی کارکردگی اور اس کی صلاحیتوں اور قوتِ برداشت کے