کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 119
دوبارہ اسی انداز میں پیدا کرے جس طرح وہ عہد ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم کے دور میں مسلمان عورت میں پائی جاتی تھیں ۔ ہاں یہ عور ت ہی ہے جو فی الواقع اس بات کی ذمہ دار اور جواب دہ ہے کہ تمام مسلمان معاشروں میں سے اسلامی شعار ضائع ہوچکے ہیں ۔ بے شک یہ ایک نہایت نازک اور گراں بار ذمہ داری ہے جس کے لئے انتہائی خلوص سے جدوجہد کی ضرورت ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی محبت میں صرف عورت ہی بروئے کار لاسکتی ہے۔ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ عورت کی اس محنت کو قبول فرمائے اور اس کی کوتاہیوں کی وجہ سے اسلامی معاشروں میں جو پسماندگی اور تباہ حالی پیدا ہوئی ہے، وہ اسے معاف فرما دے۔ یہ پسماندگی اور بدحالی نتیجہ ہے عالم اسلام کے اس دورِ زوال کا جو اس پر اس وجہ سے آیا کہ عورت پر اس کے دین، اس کے ربّ اور عالم اسلام کے حوالے سے جو فرائض عائد ہوتے تھے، اسے ان کی ادائیگی سے آزاد رہنے دیا گیا…!! اسلام نے عورت کے لئے گھر سے باہر جاکر کام کرنا حرام تو نہیں کیا لیکن اسے لازمی بھی قرار نہیں دیا۔ اس کے ذمہ اس سے کہیں بڑا اور عظیم الشان کام ہے۔ عورت کا حقیقی کام نسل کو تیار کرنا اور بنانا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے عورت کی تمام ضروریاتِ زندگی اور اس کے لئے ہر قسم کی سہولتیں فراہم کرنے کا ذمہ دار مرد کو قرار دیا ہے۔ عورت پر کوئی معاشی ذمہ داری نہیں ڈالی، نہ خاندان کی، نہ اولاد کی اور نہ خاوند کی بلکہ عورت کا نان و نفقہ اور ا س کی تمام ضروریات و سہولیات یا تو خاوند کے ذمہ ہیں یا ان مردوں کے ذمہ ہیں جو مراتب ِذمہ داری میں قرب و بعد کے لحاظ سے اس کے مربی و سرپرست ہوں ، تاہم اگر کوئی مجبوری آپڑے یا حالات کا تقاضا ہو اور عورت کو گھر سے باہر جاکر کام کرنا پڑے تو یہ ایک استثنائی صورت ہوگی، اس لئے کہ گھر کے اُمور اور خاوند کے معاملات کا خیال رکھنا، پھر بچے کی نگہداشت کے سلسلے میں حمل سے وضع حمل تک کا بوجھ اور بعد ازاں دودھ پلانا، اس کی ہر بات کا خیال رکھنا اور تربیت کرکے عالم شیرخواری سے جوانی کی منزل تک پہنچانا، دراصل یہ ہے معاشرے میں عورت کی اصلی اور حقیقی ذمہ داری! مرد کو اللہ تعالیٰ نے ممتاز جسمانی اور عقلی طاقت اور غیر معمولی قوتِ ارادی عطا فرمائی ہے اس لئے کہ مرد کے فرائض اور ذمہ داریوں کا تقاضا یہی تھا۔ اس کے بالمقابل عورت کو شفقت و