کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 116
عورت نے سب سے پہلے اپنی جو متاعِ گراں مایہ اس چکر میں گنوائی… وہ ہیں اس کے جگر گوشے، یعنی اس نے اپنے بیٹوں کو تباہ و برباد کردیا اور اس کے نتیجے میں ایک ایسی نسل وجود میں آئی جسے شیطان نے کاشت کیاہے جس کی رگِ جان سوکھ کر بے برگ و بے ثمر ہوگئی۔ یہ وہ نسل ہے جس کی پرورش غیر فطری طریقے پر ہوئی اور اس کے افراد غلط رہنمائی کے زیرسایہ پل بڑھ کر جوان ہوئے اور اب وہ خود اپنی ہی ماں کو اپنی اس مسخ شدہ فطرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، لہٰذا اس سے نفرت کرتے ہیں ، نہ اس کا حکم مانتے ہیں اور نہ اس کی نصیحت پر کان دھرتے ہیں ۔
اس کی وجہ دراصل یہ ہے کہ ان کی معصوم آنکھیں ، جب یہ بچے تھے تو اپنی اسی ماں کو اس حالت میں رخصت کیا کرتی تھیں کہ وہ ان کو پرورش خانوں یا کسی ایسی خادمہ کے پاس پھینک کر جارہی ہوتی تھی جس کو اس بچے کی کسی بات سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ ان نوجوانوں کے حافظہ میں یہ بات بھی محفوظ ہے کہ یہی ماں ان بچوں کو گنتی کے چند ٹکوں کے مقابلہ میں کتنا بے وقعت اور ناقابل التفات سمجھا کرتی تھی۔ تعجب ہے کہ ان حقائق کی موجودگی کے باوجود ہم ایک دوسرے سے یہ سوال پوچھتے ہیں کہ معاشرے میں عورت کا رول کیا ہے؟
عورت کا رول معاشرے کی تعمیر ہے، معاشرے کے لئے مردوں اور عورتوں کی تیاری ہے، ایک ایسی قوم کی تعمیر ہے جس کے مردوں کو ان کی ماؤں نے زندگی کے ابتدائی سانسوں میں ، جب وہ ان کی گود میں پرورش پا رہے تھے، سچی مامتا بھری نگاہوں اور دیانت دارانہ پُرسکون باتوں سے فیض یاب کیا ہو، اور اس کا نتیجہ یہ برآمد ہو کہ بیٹے جب جوانی کی منزل میں قدم رکھیں تو وہ بڑے سے بڑے معاملے میں بھی اپنی ماں کے مطیع فرمان ثابت ہوں اور اس کے حکم و تدبیر سے ہر بُرے کام کو دور پھینک دیں ۔ نہ تو وہ اپنے جذبات کو سگار کے دھوئیں میں اُڑائیں اور نہ کسی نشہ آور مشروب کے زہریلے قطروں میں ، بلکہ ان کے جذبات واحساسات اپنی ماں کی ان باتوں سے زندگی حاصل کرتے ہوں جو وہ اُنہیں اس اعتماد سے سناتی رہی ہے کہ وہی ان کی زندگی کے تمام مسائل و مشکلات کا حل بتانے والی ہے، اور ان باتوں میں زندہ و تابندہ رہیں جو اس نے اپنے بچے کو ایسے پراعتماد دل سے سنائی ہوں جس میں یہ یقین ہو کہ ان ہی باتوں میں ان کی خیر و فلاح ہے۔ یہی ماں اپنے بچے کا ایسا ملجا و ماویٰ ہو جس سے بچے کی کوئی اچھی بُری بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی۔