کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 115
میری مراد یہ ہے کہ جب عورت کو اس کی اصل فطرت کے دائرے سے نکال کر ایسے کاموں میں گھسیٹا گیا جو اس کی فطرت سے ہم آہنگ نہ تھے تو کیا نتائج برآمد ہوئے؟ ایسی نسلیں وجود میں آئیں جن کے وہ خلئے جو عقل و شعور کا مرکز ہوتے ہیں ، نشہ آور اشیا کے استعمال سے مسموم ہوگئے۔ اب وہ آدمی نہیں بلکہ آدمیت کی ایک جھلسی ہوئی اور مسخ شدہ شکل اور انسانیت کی انتہائی بھدی اور بھونڈی تصویر بن کر رہ گئے ہیں ۔ ہم نے خود ہی مامتا کو گنتی کے چند ٹکوں کے عوض فروخت کردیا اور پھر خود ہی پوچھتے ہیں کہ آیا معاشرے میں عورت کاکوئی رول ہے؟ آپ کس معاشرے کی بات کررہے ہیں ؟ معاشرہ باقی کہاں رہ گیا ہے؟ ہم نے گھر کو، جو معاشرے کی خشت ِاوّل تھا، اُجاڑ دیا، ہم نے عورت کو گھر سے دفتر اور دفتر سے گھر کے چکر میں ڈال کر اس کے فطری مقاصد اور طبعی صلاحیتوں کو ضائع کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرہ تباہ و برباد ہوکر رہ گیا۔ مغرب جو یہ جھوٹا اور پُرفریب دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے عورت کو آزادی عطا کی ہے، عنقریب اس پر زمانہ اپنا طبعی چکر پورا کرے گا اور پھر جب سب چیزوں کو لوٹ کر دوبارہ اپنے فطری محور و مرکز پر واپس آنا پڑے گا اس وقت اُنہیں معلوم ہوگا کہ ہم نے تو اپنے گھر کو اور گھر کے ساتھ ہی اپنے سارے معاشرے کو اُسی دن بگاڑ دیا تھا جس دن دنیا کو اس دھوکے میں مبتلا کیا تھا کہ عورت کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اپنا سامانِ معاش مہیا کرنے کے لئے محنت مزدوری کرے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عورت عورت نہ رہی بلکہ آدمیت کی مسخ شدہ صورت اور جنسی بھیڑیوں کے لئے لوٹ کا مال بن گئی۔ لہٰذا عورت کے وزیراعظم بن جانے سے کسی کو دھوکے میں مبتلا نہ ہونا چاہئے۔ حقیقت یہ ہے کہ عورت کا کمال اور اس کی بے مثال خوبی یہی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کرے اور اُنہیں ایسا قائدانہ کردار ادا کرنے کے لئے تیار کرے جو معاشرے کے لئے نفع بخش، مثبت اور نتیجہ خیز ہو۔ مسلسل عورت جب تک ماں رہی، یعنی اُمومت کے اوصاف سے متصف رہی، اس کو معاشرے میں سب سے محترم مقام حاصل رہا۔ آئیے، اب ذرا ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ عورت کو گھر سے نکال کر کارخانوں اور دکانوں میں پہنچانے کے نتیجے میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا…!!