کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 114
حاضری نہیں دیتا؟ خود سوچئے کہ عورت کے لئے یہ مقام و مرتبہ باعث ِفضل و شرف ہے یا یہ کہ روزانہ پون گھنٹہ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ وقت اپنا بناؤ سنگھار کرنے کی غرض سے آئینہ کے سامنے کھڑی رہ کر گزارے تاکہ اس کے ساتھ کام کرنے والے مرد اس کی تزئین و آرائش سے محظوظ ہوں …!
اسلام کی نظر میں جس نے یہ اعلان کیا ہے کہ ’’جنت ماں کے قدموں میں ہے۔‘‘ عور ت اس سے کہیں زیادہ گراں بہا ہے کہ وہ اپنا وقت مرد کے دوش بدوش چلنے کی خاطر ایسے کاموں میں صرف کرے جن کی بجاآوری اورتکمیل اپنی فطرت اور مزاج کے لحاظ سے مرد ہی کے ساتھ مختص ہے۔ بلاشبہ مرد کی زندگی کا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ وہ ان ذمہ داریوں کو پورا کرے جن کا اسے مکلف بنایا گیاہے ۔ بعینہٖ عورت کی زندگی کا اہم ترین فرض یہ ہے کہ وہ اپنا وہ کردار ادا کرے جو اس کا امتیاز ہے اور جو صرف وہی ادا کرسکتی ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بنی نوعِ انسان کو جس فطرت پر خلق فرمایا ہے، وہ فطرتِ سلیمہ ہے۔ مرد جو خاندان کا سربراہ اور باپ ہے، اس کی فطرت یہ ہے کہ وہ عورت کے زندہ رہنے کا سازوسامان فراہم کرے اور اس کی زندگی کے تمام مطالبات اور ضروریات کی کفالت کرے جبکہ عورت اپنی فطرت کے اعتبار سے یا تو ماں ہے اور ماں ہونے کے ناطے سے اس کا کام بچے پیدا کرنا اور ان کی تربیت کرنا ہے اور یا بیوی ہے جس کا فریضہ یہ ہے کہ اپنے خاوند کے لئے تمام ایسے حالات و اسباب مہیا کرے جو اس کو گھر سے باہر کام کرنے کے قابل بنائیں تاکہ زندگی کے تمام شعبوں میں ہر قسم کی بہترین پیداوار حاصل ہو۔
اس کارگاہِ حیات میں عورت کی صنعت مردوں اور عورتوں کی کھیپ تیار کرنا ہے اور مرد کی صنعت یہ ہے کہ وہ عورت کو وہ تمام سامان مہیا کرے جس کی عورت کو اپنی زندگی اور خوش حالی کے لئے احتیاج ہے تاکہ اس کے نتیجے میں انسان سازی کی صنعت اپنے بہترین حالات میں رواں دواں رہے اور اچھے انسان تیار ہوں ۔
کیا ان حقائق کی موجودگی میں بھی یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ کیا معاشرے یا بالفاظِ دیگر زندگی میں عورت کا کوئی رول ہے؟ ظاہر ہے کہ زندگی میں عورت کا رول یہ ہے کہ وہ ماں بنے، بیوی بنے … لیکن ہوا کیا؟