کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 113
ہے تو … کیا اس کے بعد اس کا کام ختم ہوجاتا ہے؟
کیا اس کے بعد یہ عورت ہی نہیں جو بچے کو پروان چڑھانے کی ذمہ داری کا بوجھ اُٹھاتی ہے اور راتوں کو جاگ کر اپنا خونِ جگر پلا کر اس کی نشوونما کرتی ہے؟ اور پھر کیادودھ چھڑانے کے بعد بچے کی زندگی میں عورت کاکردار ختم ہوجاتا ہے؟
واقعہ یہ ہے کہ مسلمان عورت کا مشن انتہائی نازک ہے۔ اپنے وظائف و فرائض کی مخصوص نوعیت کی بنا پر معاشرے میں وہ ذمہ داری کے انتہائی بلند مقام پر فائز ہے۔ یہ عورت ہی تو ہے جو نسلوں کی تربیت کرتی ہے۔ پہلے اس کے جسم کو پروان چڑھاتی ہے۔ اس جسمانی ساخت وپرداخت سے کہیں نازک تر یہ ہے کہ عورت ہی انسان کو انسان بناتی ہے۔ عورت ہی نسلِ انسانی کے افراد میں ، نر ہوں یامادّہ، سب میں قواے ادراک و شعور کی تکمیل کا عمل سرانجام دیتی ہے، ان میں صدق و امانت اور جواں مردی وایثار ایسے اخلاقِ فاضلہ کی آبیاری کرتی ہے۔
درحقیقت معاشرے میں عورت کا مقام وہی ہے جو جسم میں روح کا۔ عورت ہی انسانی معاشرے کی ماں اور اس کا مرکز و محور ہے۔ عورت ہی معاشرے کو تخلیق کرتی ہے۔ اسی بنیاد پر معاشرہ قائم رہتاہے۔ اور وہی اس میں زندگی کی روح پھونکتی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ عورت ہی انسانی معاشرے کو خوش بخت بناتی ہے جبکہ یہ بھی اسی کے امکان میں ہے کہ اسے بدبخت بنا دے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عورت اپنے کندھوں پر نسل انسانی کو پیدا کرنے اور وجود میں لانے کی جو ذمہ داری اُٹھاتی ہے، اسے پورا کرنے کے بعد عورت کے پاس کیا اتنا وقت بچ سکتا ہے کہ وہ مردوں سے برابری حاصل کرنے کے لئے سرکاری دفاتر یا کاروباری مراکز میں بھی جاکر کام کرے؟
اور پھر اہم بات یہ ہے کہ وہ مرد جس سے مساوات پیدا کرنا عورت نے اپنا مقصد سمجھ لیا ہے، وہ کون ہے اور کیا ہے؟ کیا یہ مرد خود عورت کا جگر گوشہ اور اسی کی کوکھ سے جنم لینے والا بیٹا نہیں ہے؟ عورت کو اس سے کیا پریشانی لاحق ہوسکتی ہے کہ اس کا لخت ِجگر وزیر بن جائے یاوزارت ِعظمیٰ کے منصب پر فائز ہوجائے۔
کیا یہی وزیراعظم ہر روز صبح کے وقت اس کے ہاتھوں کوبوسہ دینے کے لئے اس کے پاس