کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 110
جزیہ ادا کردیا ہے؟ اس نے کہا:ہاں ، اس پر عامر نے حکومتی کارندے سے کہا:دیکھو وہ کہہ رہا ہے کہ میں نے جزیہ ادا کردیا ہے اور تمہیں بھی اس سے انکار نہیں ہے اور تم اس کو بلا معاوضہ خدمت اور بیگار پر لے جانا چاہتے ہو جس پر وہ راضی نہیں ہے، لہٰذا تم اسے چھوڑ دو۔ اس نے کہا: میں نہیں چھوڑوں گا، عامر نے کہا: اللہ کی قسم!میں اپنی موجودگی میں اللہ کے ذمہ پر ظلم نہیں ہونے دوں گا۔ میں اپنی زندگی میں اپنے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذمہ ٹوٹنا برداشت نہیں کرسکتا اور اس کے بعد ذمی کو اس کے ہاتھ سے چھڑا دیا۔[1] سابق مفتی مملکت ِسعودی عرب سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ بن باز رحمۃ اللہ علیہ نے نہایت پرزور انداز میں یہ بات کہی ہے کہ ’’وہ غیر مسلم جو ہمارے خلاف برسر جنگ نہ ہوں ، ہم پابند ہیں کہ ان کوکسی قسم کی ایذا اور ضرر نہ پہنچائیں اور نہ ناحق ان پر زیادتی کریں ،بلکہ ان کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہئے جو ایک مسلمان کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ان کی امانت واپس کریں ، ان کے ساتھ دھوکہ، جھوٹ اور خیانت کا ارتکاب نہ کریں اور ان کے ساتھ کوئی نزاع یا جھگڑا ہوجائے تو احسن طریقہ سے جھگڑیں اور انصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ، کیونکہ قرآن کی تعلیمات یہی ہیں :﴿وَلَا تُجَادِلُوْا أَھْلَ الْکِتَابِ إلَّا بِالَّتِیْ ھِيَ أَحْسَنُ﴾(العنکبوت:۴۶) ’’اور اہل کتاب سے بحث نہ کرو، مگر عمدہ طریقہ سے، سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظالم ہوں ۔‘‘[2] غیر مسلموں کے حقوق کی اس اہمیت کے پیش نظر حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ مختلف علاقوں سے آنے والے وفود سے اہل ذمہ کا حال دریافت کیا کرتے تھے اور وہ جواب دیتے تھے: ’’مانعلم إلا وفائ‘‘ ’’ہم تو یہی جانتے ہیں کہ ان کے ساتھ عہد وفا ہوتے ہیں ۔‘‘[3] جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پاس یہود و نصاریٰ کی بکثرت شکایات آنے لگیں تو آپ کو معلوم ہوا کہ دیارِ بنی تغلب کا گورنر ولید بن عقبہ نے اُنہیں ڈرایا دھمکایا ہے۔آپ رضی اللہ عنہ نے اس خطرہ کے پیش نظر کہ کہیں وہ اُنہیں کسی شر میں مبتلا نہ کردے، ولید بن عقبہ کو معزول کرکے اس