کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 109
منہ فأنا حجـیجہ یوم القیمۃ)) [1] ’’جس نے کسی ذمی پر ظلم کیا یا اس کی طاقت سے بڑھ کر اس پر بار ڈالا یا اس کی رضا مندی کے بغیر اس سے کوئی چیز لی تو میں اس کے خلاف روزِ قیامت جھگڑا کروں گا۔‘‘ ان روایات کے تناظر میں یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ اہل الذمہ کو ہرچھوٹے بڑے ظلم سے بچانا اور ان کی حمایت کرنا فرض ہے، چنانچہ امام قرافی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’إن عقد الذمۃ یوجب حقوقًا علینا لھم،لإنھم في جوارنا وفي خفارتنا وذمۃ ﷲ تعالیٰ و ذمۃ رسولہٖ( صلی اللہ علیہ وسلم ) و دین الإسلام،فمن اعتدی علیھم، ولو بکلمۃ سوء أو غیبۃ في عرض أحدھم، أو نوع من أنواع الأذیۃ أو أعان علی ذلک فقد ضیّع ذمۃ ﷲ تعالیٰ وذمۃ رسول صلی اللہ علیہ وسلم وذمۃ الإسلام‘‘[2] ’’عقد ِذمہ ہمارے اوپر ذمیوں کے بہت سے حقوق واجب کردیتا ہے ،کیونکہ وہ ہماری پناہ اور حفاظت میں ہیں ، نیز اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام کی ذمہ داری میں ہیں ۔ جس نے ان پر زیادتی کی، خواہ کوئی ناروا بات کی یا اس کی غیبت کر کے اس کی عزت کو داغدار کیا یا اسے کسی بھی نوعیت کی اذیت سے دوچار کیا یا اس کے خلاف کسی کی مدد کی تو یقینا اس نے اللہ تعالیٰ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام کی ذمہ داری کو پامال کردیا۔‘‘ غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ کی ایک اور مثال ملاحظہ ہو کہ ایک عام مسلمان آدمی نے بھی اگر کسی ذمی پر ظلم ہوتے دیکھا تو ازالہ کی ہر ممکن کوشش کی، جیساکہ عامر بن عبداللہ عنبری کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ وہ ایک سواری پر سفر کررہے تھے، دیکھا کہ بادشاہ کے ایک کارندے نے ایک ذمی کو پکڑ رکھا ہے[3]اور اسے دارالإمارۃ کی طرف کھینچ رہا ہے اور ذمی اس سے فریاد کررہا ہے ۔ عامر نے جب دیکھا تو اس کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا: تمہارا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا :میں اس کو دارالامارۃ میں جھاڑو دینے کے لئے لے جارہا ہوں ۔ عامر ذمی کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا: کیا تم رضاکارانہ طور پر اس کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو؟اس نے کہا: نہیں ، اس سے میرا، کھیت کے کا م کا حرج ہوگا۔ عامر نے پوچھا: کیا تو نے