کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 108
اور دفاع کرنا تاکہ وہ مامون و محفوظ ہوجائیں ۔‘‘[1]
مسلمانوں کا اُنہیں اپنی حمایت سے محروم کردینا ان پر سخت ظلم ہے اور دین اسلام ظلم کی تمام انواع کے خلاف جنگ کرنے کا داعی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَمَنْ یَّظْلِمْ مِنْکُمْ نُذِقْہُ عَذَابًا کَبِیْرًا﴾ (الفرقان:۱۹)
’’جو تم میں سے ظلم کرے گا، ہم اُنہیں بہت بڑے عذاب کا مزہ چکھائیں گے۔‘‘
حدیث ِقدسی ہے، اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں :
یا عبادي إني حرَّمتُ الظلم علی نفسي وجعلتہ بینکم محرماً فلا تظالموا[2]
’’اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر حرام کردیا ہے کہ کسی پر ظلم کروں ، اور میں تمہارے درمیان بھی اس کو حرام ٹھہراتا ہوں ، لہٰذا آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنا۔‘‘
اور خلیفۃ المسلمین کا یہ فرض ہے کہ وہ ذمیوں سے کئے گئے معاہدوں کو پورا کرنے میں حریص ہو۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذمی کو تکلیف دینا خود اپنے کو اور اللہ تعالیٰ کو تکلیف دینے کے مترادف قرار دیا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
((من آذیٰ ذمیا فقد آذاني ومن آذاني فقد آذی ﷲ)) [3]
’’جس نے کسی ذمی کو تکلیف دی، یقینا اس نے مجھے تکلیف دی، اور جس نے مجھے تکلیف دی ، اس نے یقینا اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔‘‘
نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((من آذی ذمیًّا فأنا خصمہ،ومن کنت خصمہ خصمتـہ یوم القیمۃ)) [4]
’’جس نے کسی ذمی کو تکلیف دی، میں اس کے خلاف وکیل ہوں ۔ جس کے خلاف میں وکیل بن گیا تو پھر روز قیامت بھی میں اس کے خلاف وکالت کروں گا۔‘‘
اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں :
((ألا من ظلم معاہدًا أو کلَّـفـہ فوق طاقتہ أو أخذ شیئًا بغیر طیب نفس