کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 107
کے چہرہ پر ثبت ہیں ۔مشہور واقعہ ہے کہ جب تاتاری شام پر غالب آگئے ۔بہت سے مرد، عورتیں قیدی بنا لئے گئے ۔یہ حال دیکھ کر ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے تاتاری بادشاہ قازان سے ملاقات کی اور قیدیوں کی رہائی کے سلسلہ میں اس سے گفتگو کی۔ اس پر تاتاری کمانڈر نے صرف مسلمان قیدیوں کو چھوڑنے پر رضا مندی ظاہر کی اور ذمی قیدیوں کو رہا کرنے سے انکار کردیا، مگر ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’لا نرضی إلا بافـتکاک جمیع الآسارٰی من الیہود والنصارٰی،فھم أھل ذمتـنا ولا ندع أسیرا،لا من أھل الذمۃ ولا من أھل الملۃ، فلما رأیٰ إصرارہ و تشدّدہ أطلقھم لہ‘‘[1]
’’ہم یہودی و عیسائی تمام قیدیوں کو چھوڑے بنا راضی نہیں ہوسکتے،کیونکہ ہم نے ان کی حفاظت کا عہد کررکھا ہے۔ لہٰذا ہم اپنے نہ کسی ذمی کو قید میں چھوڑ سکتے ہیں اور نہ اپنے کسی ہم ملت کو ۔ تاتاری بادشاہ نے جب آپ کا مسلسل اصرار دیکھا تو اس نے تمام قیدیوں کو رہا کر دیا۔‘‘
خلیفہ واثق باللہ نے ۲۳۱ھ میں ان تمام مسلمان اور ذمی قیدیوں کا فدیہ اداکر کے اُنہیں رہا کروایاتھا جو رومیوں کی قید میں تھے۔[2]
مذکورہ دلائل یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہیں کہ بیرونی حملہ آور ظالموں سے غیر مسلم ذمیوں کی حفاظت بہرحال ضروری ہے تو اس سے یہ بات بالاولیٰ ثابت ہوجاتی ہے کہ داخلی اور ملکی ظلم و زیادتی سے غیر مسلموں کو بچانا اسلام کی رو سے اور بھی ضروری ہے۔امام ماوردی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
’’ویُلتزم لھم ۔ یعنی أھل الذمۃ ۔ ببذل الجزیۃ حقان : أحدھما،الکف عنھم والثاني:الحمایۃ لھم،لیکونوا بالکف آمنین وبالحمایۃ محروسین‘‘
’’اہل ذمہ جو جزیہ ادا کرتے ہیں ، اس کے عوض ان کے لئے دو حق لازم ٹھہرتے ہیں : ایک، ان پر ظلم کرنے سے باز رہنا اور دوسرا، ان کی طرف بڑھنے والا ظلم کا ہاتھ روکنا، ان کی حمایت