کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 105
کے قیدیوں کو چھڑانا مسلمانوں پر لازم ہیں ،کیونکہ وہ اس کے عوض جزیہ ادا کرتے ہیں ۔
امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے مراتب الاجماع میں اس امر کی صراحت کی ہے کہ
’’أن من کان في الذمۃ وجاء أھل الحرب إلی بلادنا یقصدونہ وجب علینا أن نخرج لقتالھم بالکراع والسلح ونموت دون ذلک صونًا لمن ھو في ذمۃ ﷲ وذمۃ رسولہٖ فإن تسلیمہ دون ذلک إھمال لعقد الذمۃ‘‘[1]
’’اگر کوئی شخص مسلمانوں کا ذمی ہے اور دشمن جنگجو ہمارے علاقہ میں آکر اس کو پکڑنا چاہتے ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم اسلحہ سے لیس ہوکر ان کے خلاف لڑنے کے لئے نکلیں اور اس شخص کی حفاظت کی خاطر اپنی جان دے دیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ میں ہے۔ اس کو دشمنوں کے حوالے کرنا اس عقد ِذمہ کو توڑنے اور پس پشت ڈالنے کے مترادف ہوگا۔‘‘
تاریخ کے صفحات میں متعدد واقعات اس حقیقت پر شاہد ہیں کہ مسلمانوں نے کس قدر جگر سوزی کے ساتھ غیر مسلموں کے حقوق کا تحفظ کیا ۔اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی کیا جاسکتا ہے جو امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الخراجمیں نقل کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ
’’ لشکر ِاسلام کے سپہ سالار جلیل القدر صحابی حضر ت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بن الجراح نے شام کو فتح کرلیا اور اہل شام نے جزیہ دینے پر صلح کرلی۔ جب اہل ذمہ نے مسلمانوں کی وفاشعاری اور حسن سیرت کو دیکھا تو وہ مسلمانوں کے دشمنوں کے خلاف ان کے مددگار اور اعداے مسلمین کے سخت مخالف بن گئے۔اُنہوں نے اپنے بندے مقرر کئے جو رومیوں کی جاسوسی کرتے تھے اور ان کی خبریں مسلمانوں تک پہنچاتے تھے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف کیا تیاری کررہے ہیں ؟ اُنہوں نے خبر دی کہ رومیوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک بہت بڑا لشکر جمع کرلیا ہے۔ ہر شہر کے رؤسا وہاں ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کے مقرر کردہ امیر کے پاس آئے اور ساری صورتِ حال ان کے گوش گزار کردی۔ اُمرا نے ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو صورت حال سے آگاہ کیا اور ہر طرف سے ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کے پاس یہ خبریں پہنچنے لگیں کہ رومیوں نے مسلمانوں کے خلاف ایک لشکر جرار جمع کرلیا ہے۔ حالات سنگین صورت اختیار کر رہے تھے۔ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے رومیوں کے مقابلہ میں اپنی فوجوں کو ایک مرکز پر جمع کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ لہٰذا اُنہوں نے شام کے تمام مفتوحہ علاقوں کے