کتاب: محدث شمارہ 306 - صفحہ 104
لعنۃ ﷲ والملائکۃ والناس أجمعین۔ لا یقبل ﷲ منہ یوم القیمۃ صرفًا ولا عدلاً )) [1] ’’غیر مسلم کو امان دینے میں سب مسلمان برابر ہیں ۔ ان کا ادنیٰ ترین شخص بھی اس کے لئے کوشش کرسکتا ہے۔ اورجس نے کسی مسلمان کے ذمہ کو توڑا، اس پر اللہ تعالیٰ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو، روزِقیامت اللہ تعالیٰ اس کی کوئی فرضی و نفلی عبادت کو قبول نہ کرے گا۔‘‘ نیز فرمایا: (( ویجیر علی المسلمین أدناھم)) [2] ’’ایک ادنیٰ مسلمان بھی غیر مسلم کو پناہ دے سکتا ہے۔‘‘ چنانچہ جب صحابیہ رسول ا مّ ہانی رضی اللہ عنہا بنت ِابی طالب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ہبیرہ کے فلاں بیٹے کو پناہ دے چکی ہوں اور میرا بھائی علی رضی اللہ عنہ کہتا ہے کہ میں اس آدمی کو قتل کروں گا ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( قد أجرنا من أجرتِ یا أمّ ہاني)) ’’اے اُمّ ہانی جس کو تم نے پناہ دی، ہم بھی اس کو پناہ دیتے ہیں ۔‘‘[3] الغرض دین ِاسلام کے مخالفین جو امن و امان کے طلبگار ہوں ، اُنہیں امن و پناہ مہیا کرنا، پھراس پناہ کو توڑنے پر سخت وعید سنانا اور اس پناہ کے تحفظ کی ضرورت پر سخت زور دینا، امن امان دینے کا معاہدہ کرنے کے بعد ان پر کسی طرح کی زیادتی روا رکھنے کو سختی سے روکنا، اسلام کے وہ مناقب ہیں جن کا اس دین ِحنیف کے علاوہ کسی اور مذہب میں وجود محال ہے۔ 6. ظلم سے بچاؤ اور تحفظ کا حق[4] اسلامی حکومت کا یہ فرض ہے کہ وہ غیر مسلموں کو ان کے علاقہ میں ان تمام بیرونی دشمنوں سے تحفظ فراہم کرے جو اُنہیں نقصان پہچانا چاہتے ہیں اور یہ وہ تمدنی حق ہے جس میں کوتاہی کو اسلام نے برداشت نہیں کیا،کیونکہ غیر مسلموں کو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو مسلمانوں کو حاصل ہیں ، بلکہ تمام مصائب سے ان کا دفاع کرنا، ان کے تحفظ کی خاطر قتال کرنا اور دشمنوں سے ان